ثانیہ زہرہ کیس اور سماج سے سوال

ہفتہ 22 نومبر 2025
author image

قرۃ العین حیدر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بیٹیاں ہمارے گھروں کی رونق ہیں، ان کے ناز اٹھائے جاتے ہیں، ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر ’جائز’ خواہش پوری کی جاتی ہے۔ لیکن ہم میں سے کتنی بیٹیاں ایسی ہیں جن کے کانوں میں کبھی نہ کبھی بچپن میں یہ آواز پڑی ہوگی، چاہے وہ کسی رشتہ دار کی ہو، چاہے ماں یا باپ کی، کہ دیکھو! اس کے اتنے ناز نہ اٹھاؤ، بعد میں پریشانی ہوگی۔ اس کو کچھ کام کاج تو سکھا دو، اگلے گھر کیا کرے گی، پھوہڑ کو کون رکھے گا؟ اسے سمجھاؤ کہ اپنے مزاج میں نرمی پیدا کرے، ذرا سہج کر رہے۔ اگلے گھر کوئی یہ نخرے برداشت نہیں کرے گا۔

بیٹی کی پیدائش پر کوئی آنٹی یا انکل منہ لٹکا کر کہہ دیتے ہیں’۔۔۔ دیکھو، بیٹی تو رحمت ہے، بیٹیوں سے تو ڈر نہیں لگتا، بس ان کی قسمت سے ڈر لگتا ہے‘۔

کیوں ڈر لگتا ہے؟ کیا بیٹی کی قسمت پیدائشی طور پر بیٹے کے مقابلے میں کمزور ہے؟

نہیں! ۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ اُس کی قسمت وہ خود نہیں لکھتی، اُس کے گھر والے، اس کا معاشرہ لکھتا ہے جو اُسے اپنی قسمت خود لکھنے کی کوئی آزادی نہیں دیتا۔

یہ بھی پڑھیں:ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان

ملتان کی رہائشی ثانیہ زہرہ کے ماں باپ نے بھی یقیناً اپنی بیٹی کو محبت سے پالا ہوگا۔ پھر کم عمری میں شادی کردی کہ اچھا رشتہ مل گیا۔ اور جب وہ لڑ جھگڑ کر واپس آئی ہوگی تو شاید یہ بھی سمجھایا ہوگا کہ سمجھوتا ہی سب سے بہتر حل ہے۔

بیٹیاں تو سسرال میں ہی سجتی ہیں۔

وقت بدل جائے گا، بچے بڑے ہوں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

ہم بھی یہی سنتے ہیں نہ کہ اپنا گھر بچانا عورت کا فرض ہے۔

اور پھر ایک دن وہ 22 سالہ حاملہ لڑکی 2 بچے روتے چھوڑ گئی۔ اگلے گھر سے بہت جلدی اگلے جہان بھیج دی گئی۔

حال ہی میں سیشن کورٹ نے گھریلو تشدد کے نتیجے میں قتل ہونے والی ثانیہ زہرہ کے کیس میں تاریخی فیصلہ سنایا۔اُس کا شوہر سزائے موت کا حق دار ٹھہرا، اور دیور اور ساس عمر قید کی سزا پا چکے ہیں۔ ان سب نے قتل عمد کو خودکشی کا رنگ دیا تھا۔ 40 سے زیادہ گواہوں کی گواہیاں، فرانزک شواہد، حکومتی کوششیں، سول سوسائٹی ، سوشل میڈیا ایکٹوزم اور سب سے بڑھ کر اُس کے والد کی لمبی جدوجہد نے یہ ممکن بنایا۔

سوشل میڈیا پر لوگ اسے صرف ایک باپ کی جیت نہیں بلکہ گھریلو تشدد کا شکار بہت سی عورتوں کے لیے  اُمید کی کرن بتا رہے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا اب کوئی لڑکی پنکھے سے لٹکی ہوئی نہیں ملے گی؟

یہ بھی پڑھیں:آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے

کیا اب کوئی باپ صرف ’ذمہ داری اتارنے‘ کے لیے 15 سولہ سالہ بیٹی کا نکاح نہیں کرے گا؟

کیا اب کوئی لڑکی یہ سوچ کر ظلم برداشت نہیں کرے گی کہ ’سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، بسنے کے لیے تکلیف اٹھانی ہی پڑتی ہے‘۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم رشتوں کے پردے رکھنے کو انسانی جان اور ذہنی صحت سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں۔ ہمیں بطور انسان دوسرے کی اور اپنی حدود کا تعین کرنا نہیں سکھایا جاتا۔

کچھ کے سسرال میں اچانک سلنڈر پھٹ جاتا ہے۔ کوئی ڈپریشن سے مر جاتی ہے۔ کچھ کو نفسیاتی عارضہ لاحق ہو جاتے ہیں۔ کچھ صرف بظاہر زندہ رہتی ہیں۔

عورت کو برابری کے حقوق دینے کا مطلب صرف سرکاری ملازمت میں کوٹہ، معاشی مدد یا تشدد اور ہراسمنٹ کے خلاف قوانین بنانا نہیں۔ وہ برابر کی شہری تب بنے گی جب اُس کے گھر والے، رشتہ دار اور سماج اُس کے تئیں اپنا رویہ بدلے گا۔ اُسے برابری تب ملے گی جب ہم اپنی بیٹی سے یہ کہیں گے کہ ’تم اگلے گھر کی امانت نہیں، بلکہ تمہاری زندگی تمہاری امانت ہے۔ تم اپنی زندگی کی آپ مالک ہو۔ تم باشعور ہو، مضبوط ہو، تمہاری اپنی رائے ہے، تمہاری مرضی ہے، تمہارا فیصلہ ہے۔ اپنی زندگی کے فیصلے سوچ سمجھ کر کرو اور ان کا بوجھ بھی خود اٹھانا سیکھو۔اگر کوئی رشتہ تکلیف دے تو پورے اعتماد اور گریس کے ساتھ اس رشتے کو ختم کرنا سیکھو‘۔

یہ بھی پڑھیں:طلاق اور علیحدگی کے بدلتے اصول: ’گرے ڈائیورس‘ کا بڑھتا ہوا رجحان

پاکستان میں ہر سال سینکڑوں عورتیں قتل ہوتی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی گھریلو تشدد سے ، کبھی حادثے کے نام پر، کبھی ’خودکشی نوٹ‘ لکھ کر۔ اس لیے کہ جو وہ چاہتی ہیں وہ بول نہیں سکتیں، یا بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ثانیہ زہرہ کو مرنے کے بعد انصاف مل گیا،

مگر کئی گھروں میں پھنسی زندہ ثانیہ کو انصاف کیسے ملے گا؟ ۔۔۔ اب وقت ہے کہ ہم بیٹیوں کے لیے الفاظ بدلیں، نظریہ بدلیں، تربیت بدلیں۔ بیٹی کی پرورش اگلے گھر کے لیے نہیں، بلکہ ایک خود مختار، باوقار اور محفوظ زندگی کے لیے کرنی شروع کریں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

کراچی میں ای چالان کے بعد روبوٹ کارز ٹریفک کا انتظام سنبھالنے کے لیے میدان میں آگئیں

میڈیا انڈسٹری اور اکیڈیمیا میں رابطہ اور صحافت کا مستقبل

‘شہر کی ترقی کے لیے ایک ہیں،’ باہمی تناؤ کے باوجود ٹرمپ اور زہران ممدانی کی خوشگوار ملاقات

آئی ایم ایف رپورٹ: سرکاری ملکیتی ادارے کرپشن کی وجہ قرار، عدالتی اصلاحات پر زور

ایوان بلوچستان میں وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کے مخالف کون؟

ویڈیو

میڈیا انڈسٹری اور اکیڈیمیا میں رابطہ اور صحافت کا مستقبل

سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے حساس ڈیٹا کیوں چوری کیا؟ 28ویں آئینی ترمیم، کتنے نئے صوبے بننے جارہے ہیں؟

عدلیہ کرپٹ ترین ادارہ، آئی ایم ایف کی حکومت کے خلاف چارج شیٹ، رپورٹ 3 ماہ تک کیوں چھپائی گئی؟

کالم / تجزیہ

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟