کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے ایک بار پھر بازگشت ہو رہی ہے۔ اس بار وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے بیان سامنے آیا ہے، جس میں اشارہ ملا ہے کہ اب بھی تاریخی سرکلر ریلوے کی بحالی کے امکانات موجود ہیں۔
کراچی سرکلر ریلوے نے 1964 میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور 70 کی دہائی میں اس نے ریکارڈ منافع کمایا، لیکن پھر جیسے اسے بھی نظر لگ گئی اور پاکستان اسٹیل کی طرح یہ بھی قومی خزانے پر بوجھ بننے لگی۔ یوں 1999 تک پہنچ کر سرکلر ریلوے کو بند کرنا پڑا اور عوام ایک سستی پبلک ٹرانسپورٹ سے محروم ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کی اپ گریڈیشن: نئی سہولیات کونسی ہیں؟
وقت کے ساتھ ساتھ سرکلر ریلوے کے ٹریک پر تجاوزات قائم ہوتے گئے، پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ سرکلر ریلوے کے آثار کہیں بھی نہ دکھائی دینے لگے، جیسے ایک صدی پرانا کوئی پراجیکٹ ہو جو خاک میں مل گیا ہو۔
کراچی سرکلر ریلوے کے قصے بڑے بزرگ سنانے لگے، ایسے ہی جیسے ماضی کے کسی خوشگوار احساس کو یاد کیا جائے۔ وقت گزرتا گیا لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان بھی شاید کراچی سرکلر ریلوے کو بھولنے کو تیار نہیں تھی۔

پہلے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، اس کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے تجاوزات کیس میں احکامات جاری کیے، خصوصاً کے سی آر کے ٹریک پر قائم تجاوزات کو ہٹانے کے حوالے سے۔
یہ سلسلہ مزید آگے سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے بڑھایا، جب انہوں نے کے سی آر کو پھر سے بحال کرنے کا حکم دیا، جس میں سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد بھی پیش پیش رہے۔
یہ بھی پڑھیں:سی پیک منصوبے کے تحت کراچی تا پشاور ریلوے ٹریک کا انجینیئرنگ ڈیزائن مکمل
عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 14 کلومیٹر ٹریک ٹھیک کردیا گیا ہے، جو تجاوزات ہٹانے کے قابل تھیں وہ ہٹا دی گئیں، جبکہ جہاں ایسا کرنا ممکن نہیں تھا وہاں پل بنائے جائیں گے۔
اب پھر سے کراچی سرکلر ریلوے کو فعال کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، لیکن گزشتہ عرصے میں تھوڑے بہت اٹھائے گئے اقدامات بھی ایسا لگتا ہے دوبارہ اٹھانے پڑیں گے، کیونکہ تیار شدہ 14 کلومیٹر ٹریک بھی اب پھر سے تباہ و برباد دکھائی دے رہا ہے۔














