پاکستان کا جی ایس پی پلس (GSP+) سفر ایک طویل تاریخ اور مسلسل جدوجہد کا آئینہ دار ہے۔ اس کی بنیاد 1971 میں اس وقت رکھی گئی جب اقوام متحدہ کی کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ نے ترقی پذیر ممالک کی برآمدات بڑھانے اور وہاں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے یورپی منڈیوں تک ترجیحی رسائی دینے کا فیصلہ کیا۔
اسی فیصلے کے نتیجے میں جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز (GSP) کا آغاز ہوا، جس کے تحت منتخب ممالک کی مخصوص مصنوعات پر عائد ڈیوٹی یا تو کم کر دی جاتی ہے یا مکمل طور پر ختم کر دی جاتی ہے۔
اس اسکیم کے تین حصے ہیں: بنیادی جی ایس پی، جی ایس پی پلس، اور ایوری تھنگ بٹ آرمز۔ پاکستان جی ایس پی پلس ممالک میں شامل ہے، جس کے نتیجے میں دو تہائی پاکستانی مصنوعات یورپی منڈی میں صفر فیصد درآمدی ڈیوٹی کے ساتھ داخل ہوتی ہیں۔
تاہم یہ سہولت مشروط ہے۔ کسی بھی ملک کو یہ درجہ حاصل کرنے کے لیے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور گورننس سے متعلق 27 بین الاقوامی معاہدوں کی مکمل پاسداری لازمی قرار دی گئی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے بنیادی اصولوں کے تحت جبری مشقت، چائلڈ لیبر اور امتیازی سلوک کا خاتمہ اور صنعتوں میں یونین سازی کو یقینی بنانا اس کے بنیادی تقاضے ہیں۔
ان کنونشنز کی خلاف ورزی کی صورت میں یورپی یونین اس سہولت کو واپس لینے کا اختیار رکھتی ہے۔ اسی لیے یورپی یونین پاکستان سمیت تمام مستفید ممالک کی مانیٹرنگ مسلسل جاری رکھتی ہے، اور ان کی رپورٹس پر کسی تحفظ کے بغیر اتفاق کرنا بھی اہل ممالک کے لیے لازم ہے۔
پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ 2013 میں ملا اور یکم جنوری 2014 سے اسے ڈیوٹی فری رسائی کے فوائد حاصل ہونا شروع ہوئے، جن میں اب تک 2 مرتبہ توسیع ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے پاکستان 2002 سے 2004 تک اس اسکیم سے فائدہ اٹھا چکا ہے مگر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اعتراضات کے بعد اس سہولت کو ختم کر دیا گیا تھا۔
پاکستان، فلپائن، سری لنکا، کرغزستان، ازبکستان اور متعدد دیگر ممالک اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ اسٹیٹس کی معیاد 2023 میں ختم ہوئی، تاہم مزید 4 سال کی توسیع کی بدولت پاکستان 2027 تک نئی شرائط پوری کرتے ہوئے اس سہولت سے مستفید ہوتا رہے گا۔
جی ایس پی پلس پاکستان کے لیے محض ایک تجارتی رعایت نہیں بلکہ ملکی معیشت، برآمدات، روزگار اور سماجی استحکام کا بنیادی ستون ہے۔ ہر سال قریباً 6 ارب یورو (قریباً 2,070 ارب روپے) کی پاکستانی مصنوعات، خصوصاً ٹیکسٹائل، یورپی مارکیٹ تک ڈیوٹی فری رسائی حاصل کرتی ہیں، جس سے پاکستان کو 450 سے 550 ملین یورو (قریباً 155 سے 190 ارب روپے) کی بچت ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ 15 سے 20 لاکھ ملازمتیں، جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہے براہِ راست اس اسکیم کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ 2014 سے اب تک پاکستان کو 3.6 ارب یورو (قریباً 1,242 ارب روپے) کے مجموعی فوائد حاصل ہو چکے ہیں اور یورپ کے ساتھ تجارت ساڑھے 4 ارب یورو (قریباً 1,380 ارب روپے) سے بڑھ کر 9 ارب یورو (قریباً 3,105 ارب روپے) تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان نے اس اسکیم کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قومی سطح پر ایک مؤثر تعمیلی ڈھانچہ قائم کیا ہے۔ ٹریٹی امپلیمنٹیشن سیلز اور جی ایس پی پلس فوکل پوائنٹس کا قیام، خودکار رپورٹنگ سسٹم اور اعلیٰ سطح مذاکرات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت حاصل ہوئی، اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کو ’اے اسٹیٹس‘ ملنا بین الاقوامی سطح پر ادارہ جاتی اصلاحات کا اعتراف ہے۔
انسانی حقوق اور لیبر اصلاحات کے حوالے سے بھی متعدد پیشرفت سامنے آئی ہیں۔ اسلام آباد میں بچوں کی شادی کی عمر 18 سال مقرر کی گئی، لیبر انسپیکشنز میں 20 فیصد اضافہ ہوا اور برآمدی زونز میں ٹریڈ یونینز کی آزادانہ رجسٹریشن کی سہولت فراہم کی گئی۔ ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں 10 بلین ٹری سونامی جیسے اقدامات کی بدولت پاکستان کو جی ایس پی پلس ممالک میں سب سے فعال ملک قرار دیا گیا۔
تاہم یورپی یونین کے تحفظات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔ یورپی سفیر ریمنڈس کروبلس کے مطابق پاکستان کو انسانی حقوق، لیبر اصلاحات، ماحولیات اور اچھی حکمرانی کے حوالے سے مزید پیشرفت دکھانا ہوگی۔ جبری گمشدگیاں، توہینِ مذہب قوانین، اقلیتوں کے حقوق اور آزادی اظہار جیسے معاملات یورپی ملکوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔
سابق سفیروں رینا کیونکا اور اولوف سکوگ نے بھی خبردار کیا تھا کہ فوجی عدالتوں کا استعمال، میڈیا پر پابندیاں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر دباؤ جی ایس پی پلس مراعات کو متاثر کر سکتے ہیں۔
اکتوبر 2025 میں وزیرِ تجارت جام کمال نے یورپی کمپنیوں کو ٹیکنالوجی کی منتقلی، پائیدار زراعت اور فوڈ چین میں تعاون کی دعوت دی۔ انہوں نے دو اہم معاملات بھی اٹھائے: ایتھنول پر ڈیوٹی میں رعایت کی واپسی، جس سے دیہی روزگار متاثر ہوا، اور باسمتی چاول کی جغرافیائی شناخت کا تنازع، جس پر انہوں نے منصفانہ اور غیرجانبدار فیصلہ کرنے پر زور دیا۔ یہ دونوں مسائل پاکستان کی دیہی معیشت، کاشتکاروں کے روزگار اور سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
اگلا بڑا امتحان آج سے (24 تا 28 نومبر 2025) شروع ہونے والا یورپی مانیٹرنگ مشن ہوگا، جس کے خفیہ نتائج 2026 کی رپورٹ میں شامل کیے جائیں گے۔ یہی رپورٹ طے کرے گی کہ پاکستان 2027 کے بعد بھی ان مراعات سے فائدہ اٹھا پائے گا یا نہیں۔
تاہم پاکستان کی موجودہ رفتار، اصلاحات کا تسلسل اور ادارہ جاتی پیشرفت یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان نے معاہدوں پر دستخط صرف رسمی کارروائی کے طور پر نہیں کیے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے انہیں قومی ترجیح بنا دیا ہے، اور غالب امکان یہی ہے کہ آئندہ فیصلہ بھی پاکستان کے حق میں آئے گا۔
پاکستان کی کوششیں، اصلاحات اور بین الاقوامی سطح پر بڑھتا ہوا اعتماد اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ جی ایس پی پلس صرف ایک سہولت نہیں بلکہ پاکستان کے تجارتی مستقبل کا اہم دروازہ ہے اور یہ سفر نہ صرف جاری رہے گا بلکہ دیرپا بھی ہوگا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













