وائٹ ہاؤس کے چند ہی فاصلے پر فائرنگ کے واقعے میں شدید زخمی ہونے والے ویسٹ ورجینیا کے 2 نیشنل گارڈ اہلکار تشویشناک حالت میں بدستور زیر علاج ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وائٹ ہاؤس کے نزدیک فائرنگ، نیشنل گارڈ کے 2 اہلکار شدید زخمی، مشتبہ افغان حملہ آور گرفتار
سی این این کے مطابق واشنگٹن ڈی سی کی میئر میوریل باؤزر نے اس واقعے کو ٹارگٹڈ شوٹنگ قرار دیا ہے۔
امیگریشن کیسز کی پروسیسنگ معطل
اس حوالے سے صدر ٹرمپ نے ایک مذمتی بیان بھی جاری کیا جس کے فوراً بعد یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز نے اعلان کیا کہ افغان شہریوں سے متعلق تمام امیگریشن درخواستوں کی پروسیسنگ غیر معینہ مدت تک معطل کر دی گئی ہے۔
مزید 500 نیشنل گارڈ کی تعیناتی کی درخواست
ٹرمپ انتظامیہ نے واشنگٹن ڈی سی میں سیکیورٹی بڑھانے کے لیے مزید 500 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کرنے کی درخواست کر دی ہے۔
ساتھ ہی انتظامیہ نے ایک وفاقی جج کے اس حکم کے خلاف اپیل بھی کی ہے جس میں واشنگٹن میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے جج نے اس تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
ایف بی آئی نے تحقیقات شروع کر دیں
دریں اثنا رائٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس سے چند بلاکس کے فاصلے پر نیشنل گارڈ کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات ایف بی آئی کی جوائنٹ ٹیررزم ٹاسک فورس نے شروع کر دی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ حملہ گھات لگا کر کیا گیا اور یہ واقعہ تھینکس گیونگ سے ایک روز قبل پیش آیا۔
حملے میں 2 اہلکار شدید زخمی
حملے میں شدید زخمی ہونے والے دونوں نیشنل گارڈ اہلکار اس مشن کا حصہ تھے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایات پر دارالحکومت میں قانون نافذ کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ دونوں اہلکاروں کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔
مشکوک حملہ آور کی شناخت
گولیوں کے تبادلے میں زخمی ہونے والے اور بعد ازاں گرفتار کیے گئے حملہ آور کی شناخت محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے رحمان اللہ لکنوال کے نام سے کی۔ مذکورہ دہشتگرد افغان نژاد ہے اور 2021 میں Operation Allies Welcome پروگرام کے تحت امریکا آیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق لکنوال افغان فوج میں 10 سال تک خدمات انجام دے چکا ہے اور قندھار میں امریکی اسپیشل فورسز کے ساتھ تعینات رہا۔
National Guard shot near the White House at a little before 2:15.
I was in an Uber to work, with my cameraman, and heard multiple shots fired as we passed Farragut West.
A member of the National Guard fell while others rushed onto the scene.
Area still on lockdown and… pic.twitter.com/A4wKORrEZg
— Mari Otsu (@marisotsu) November 26, 2025
اس کے ایک رشتے دار کے مطابق وہ آخری بار ایمیزون میں ملازم تھا۔
مزید پڑھیے: وائٹ ہاؤس کے نزدیک نیشنل گارڈز پر فائرنگ کرنیوالا رحمان اللہ لکنوال کون ہے؟
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق لکنوال نے دسمبر 2024 میں امریکا میں پناہ کی درخواست دی تھی جو 23 اپریل کو منظور ہوئی۔
صدر ٹرمپ کا سخت ردِعمل
صدر ٹرمپ، جو حملے کے وقت فلوریڈا میں تھے، نے ایک ویڈیو بیان میں اسے شر انگیزی، نفرت اور دہشتگردی کا عمل قرار دیا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ بائیڈن دور میں آنے والے تمام افغان شہریوں کی سیکیورٹی جانچ پڑتال دوبارہ کی جائے گی۔
اسی دوران یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز نے افغان شہریوں کی تمام امیگریشن درخواستوں کی پروسیسنگ غیر معینہ مدت تک کے لیے روک دی۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
فائرنگ دوپہر کے وقت ایک مصروف علاقے میں سب وے اسٹیشن کے باہر ہوئی۔
مزید پڑھیں: کیا امریکیوں پر حملہ آور افغان دہشتگرد سی آئی اے کے لیے خدمات انجام دیتا رہا؟
پولیس کے مطابق حملہ آور اچانک ایک کونے سے نکلا، اس نے ہتھیار نکالا اور نیشنل گارڈ اہلکاروں پر براہ راست فائرنگ کر دی۔
جوابی کارروائی میں وہ زخمی ہوا اور دیگر گارڈ اہلکاروں نے اسے حراست میں لے لیا۔
حملے کے فوراً بعد وائٹ ہاؤس کو سیکیورٹی لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔
مزید فوج تعینات کرنے کی درخواست
وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کے مطابق صدر نے واشنگٹن ڈی سی میں پہلے سے تعینات 2 ہزار نیشنل گارڈ اہلکاروں کے علاوہ مزید 500 فوجی بھیجنے کی درخواست کی ہے۔
سیاسی ردعمل
نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا کہ واقعہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کی درستگی ثابت کرتا ہے۔
دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی پالیسی ضرورت سے زیادہ سخت ہے اور بعض قانونی تارکین وطن کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مقامی انتظامیہ کا مؤقف
واشنگٹن ڈی سی کی میئر میوریل باؤزر نے اسے ٹارگٹڈ شوٹنگ قرار دیا۔
میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق دہشتگرد حملہ آور اکیلا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: وائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ، امریکا نے افغان شہریوں کی امیگریشن درخواستیں معطل کر دیں
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک وفاقی جج نے چند روز قبل نیشنل گارڈ اہلکاروں کو میئر کی اجازت کے بغیر قانون نافذ کرنے کے اختیارات دینے کے حکومتی فیصلے پر عارضی پابندی لگائی تھی جس کا نفاذ دسمبر تک مؤخر کیا گیا ہے۔














