پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا ہے کہ سنہ 2022 میں آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت ان کی جماعت میں کوئی بھی جنرل عاصم منیر کو ذاتی طور پر نہیں جانتا تھا۔ حکومت میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے فیصلہ سازی کر رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیے ’قوم برسوں ان کے بوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی‘، خواجہ آصف کا سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پر ردعمل
نجی ٹیلی ویژن چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے دعویٰ کیا کہ فوج کے نئے سربراہ کی تعیناتی کے دوران اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ نے 8 سے 9 روز تک مزاحمت کی اور یہاں تک دھمکی دی کہ اگر انہیں توسیع نہ دی گئی تو وہ ’ٹیک اوور‘ کر لیں گے۔
ان کے مطابق اس دوران جنرل باجوہ کبھی لالچ دیتے رہے اور کبھی دباؤ ڈالتے رہے۔

خواجہ آصف نے مزید دعویٰ کیا کہ جنرل (ریٹائرڈ) باجوہ کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو نیا آرمی چیف تعینات کر دیا جائے۔
یہ بیانات ایک ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو فوجی عدالت نے کورٹ مارشل کی کارروائی میں 4 الزامات ثابت ہونے پر 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی ہے۔
یہ بھی پڑھیے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ثابت،جنرل فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی، آئی ایس پی آر
آئی ایس پی آر کے مطابق ان کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، حکومتی وسائل کے غلط استعمال اور شہریوں کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات پر کارروائی کی گئی۔
فیض حمید کے وکیل میاں علی اشفاق نے غیرملکی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ انہیں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی ہدایات موصول ہو چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ فیصلے کی کاپی اور متعلقہ ریکارڈ کے لیے ملٹری کورٹ میں درخواست جمع کرائیں گے، جبکہ قانون کے مطابق 40 روز کے اندر اندر اپیل کورٹ میں اپیل دائر کرنا ضروری ہے۔














