سینیئر صحافی طلعت حسین نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید کو سزا اور عمران خان کے خلاف زیرِ التوا مقدمات محض انفرادی کیسز نہیں بلکہ ریاستی اور سیاسی نظام میں آنے والی بڑی تبدیلیوں کی علامت ہیں۔ ان کے مطابق ان فیصلوں کی ٹائمنگ اور پس منظر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طاقت کے ڈھانچے میں اب نتائج کی سیاست شروع ہوچکی ہے، جہاں فیصلے تاخیر کے بغیر سامنے آ رہے ہیں۔
وی نیوز کے پروگرام ’صحافت اور سیاست‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی طـلعت حسین نے کہاکہ پاکستان میں چیف آف ڈیفنس فورسز کے نظام کا نفاذ ایک وقتی انتظام نہیں بلکہ مکمل ادارہ جاتی تبدیلی ہے۔
مزید پڑھیں: جنرل فیض حمید کو سزا، کیا عمران خان بھی لپیٹ میں آ سکتے ہیں؟
ان کے مطابق تمام مسلح افواج کو ایک کمانڈ کے تحت لانا دفاعی پالیسی، سیکیورٹی فیصلوں اور عسکری سفارتکاری کے طریقہ کار کو یکسر بدل دے گا۔
’چونکہ آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہیں، اس لیے فیصلہ سازی ایک مرکزی ڈھانچے کے تحت ہوگی۔‘
انہوں نے کہاکہ دفاعی معاملات کے ساتھ ساتھ اس تبدیلی کے اثرات خارجہ پالیسی اور معیشت پر بھی پڑیں گے۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے کردار میں وسعت آئے گی اور جنگ و امن سے متعلق فیصلے زیادہ مربوط انداز میں کیے جائیں گے۔ ’دفاع اور خارجہ امور کے درمیان اب واضح حد بندی کم ہوتی جا رہی ہے‘۔
’فیض حمید کو سزا کی ٹائمنگ غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے‘
سیاسی منظرنامے پر بات کرتے ہوئے طلعت حسین نے کہاکہ جنرل فیض حمید کا کیس بظاہر ایک ادارہ جاتی معاملہ ہے، تاہم صحافتی نقطہ نظر سے اس کی ٹائمنگ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔
’فیصلہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد آیا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ نئے نظام کے تحت پیغامات واضح اور فوری دیے جا رہے ہیں‘۔
مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماؤں کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لینے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی جوڑی ماضی میں بھی سیاسی مباحث کا حصہ رہی ہے۔ نواز شریف کی جانب سے گوجرانوالہ کے جلسے میں ان دونوں شخصیات کا ذکر اسی تسلسل کی کڑی تھا، جسے اب دوبارہ موضوعِ بحث بنایا جا رہا ہے۔
’سیاسی جماعتیں کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتیں‘
پاکستان تحریک انصاف کے مستقبل کے بارے میں طلعت حسین کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف بننے والے مقدمات سے بچنا آسان دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم، سیاسی جماعتیں مکمل طور پر ختم نہیں ہوتیں بلکہ وقت کے ساتھ ان کی قوت میں کمی یا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اسٹریٹ پاور پہلے جیسی نہیں رہی، اگرچہ ووٹ بینک موجود ہونے کی صورت میں جماعت کسی حد تک سیاسی میدان میں برقرار رہ سکتی ہے۔
’ماضی کے جلسوں اور مارچز کے مقابلے میں حالیہ عرصے میں عوامی شرکت محدود رہی ہے، جس میں زیادہ تر لوگ خیبرپختونخوا سے آتے دکھائی دیے، جبکہ پنجاب اور کراچی سے نمایاں شرکت نظر نہیں آئی‘۔
افغانستان سے متعلق گفتگو میں سینیئر صحافی نے کہاکہ طالبان کی قیادت ماضی میں بھی سفارتی دباؤ کا سامنا ہونے پر مذہبی بیانیے اور فتوؤں کا سہارا لیتی رہی ہے۔
’حالیہ بیانات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ پاکستان نے اس معاملے پر محتاط ردِعمل دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ تحریری معاہدوں اور عملی اقدامات کو ہی اہمیت دے گا۔‘
علاقائی سیاست پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ افغانستان کو اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ جغرافیائی اور معاشی حقائق کے باعث پاکستان کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ چین، ایران، ترکیہ اور سعودی عرب سمیت مختلف علاقائی قوتوں کا دباؤ بھی کابل کی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔
’پاک افغان کشیدگی دونوں ممالک کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہے‘
’پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی دونوں ممالک کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہے، اس لیے حقیقت پسندانہ سفارتکاری ہی بہتر راستہ ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بہترین حکمتِ عملی وہ ہوتی ہے جس میں لڑے بغیر اپنے مقاصد حاصل کر لیے جائیں۔ حالیہ برسوں میں بعض واقعات نے نئی دہلی کو سفارتی سطح پر مشکلات سے دوچار کیا ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والے باغی تصور ہوں گے، افغان علما کا اعلان
’آسٹریلیا میں ہونے والے ایک دہشتگردی کے واقعے میں بھارتی شہریوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کے بعد اس واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی‘۔
طلعت حسین نے کہاکہ عالمی سطح پر اب منظم دہشتگردی کے مقابلے میں انفرادی دہشتگردی ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ بھارت ایک ہندو ریاست کی سمت بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، جہاں غیر ہندو، خصوصاً مسلمانوں کے لیے سیاسی اور سماجی گنجائش محدود ہوتی جا رہی ہے۔













