اسلام آباد: نویں اقتصادی جائزے کے لیے پاکستان میں موجود آئی ایم ایف وفد نے 6.5 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ کی بحالی کے سیاسی اتفاق رائے پر زور دیا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے گزشتہ روز خدشات کا اظہار کیا کہ اپوزیشن سخت اقتصادی فیصلوں پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتی ہے، اس خدشے کے پیش نظر اس نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پروگرام کے بہت تاخیر سے ہونے والے جائزے کی تکمیل کے لیے تمام ضروری تقاضے پورے کرے۔
ایکسپریس ٹریبون میں شائع ایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف کے دورے پر آئے ہوئے مشن چیف ناتھن پورٹر نے مشکل فیصلوں میں اپوزیشن کے کردار کے مضمرات کے بارے میں سوال اٹھایا جو پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے لینے پڑیں گے۔
معروف بزنس رپورٹر مبشر رانا کے مطابق آئی ایم ایف نے ان خدشات کا اظہار 10 روزہ مذاکرات کے ابتدائی دور کے دوران کیا۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع نے آئی ایم ایف کے مشن کے سربراہ کے حوالے سے بتایا کہ مشن کو خدشات ہیں کہ اپوزیشن ٹیکسوں کے اضافی اقدامات کو نافذ کرنے کی راہ میں کچھ مسائل پیدا کر سکتی ہے جو حکومت مذاکرات کو بحال کرنے کے لیے مسلط کرنے کا سوچ رہی ہے۔
تاہم وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف مشن کے سربراہ کو یقین دلایا کہ حکومت سیاسی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت اضافی ٹیکس کو اس طریقے سے نافذ کرنے کی کوشش کرے گی جس سے کسی بھی ناخوشگوار قانونی اور سیاسی چیلنجز سے بچا جا سکے۔
پاکستان نے مطالبات پر عملدرآمد کیلئے آئی ایم ایف سے وقت مانگ لیا
اس حوالے سے حکومت صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی لیکن آئی ایم ایف کے خدشات برقرار رہنے کی صورت میں حکومت پارلیمنٹ سے بھی مدد لے سکتی ہے۔ تاہم پارلیمنٹ کے راستے ہدف تک پہنچنے میں کم از کم 14 دن لگیں گے۔
اطلاع یہی ہے کہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف ٹیم کو اس منفی کردار سے بھی آگاہ کیا جو عمران نے ماضی میں مختلف مواقع پر معیشت کو پٹری سے اتارنے کے لیے ادا کیا۔
آئی ایم ایف مشن کے سربراہ نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ انہیں پروگرام کے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم وفد کے سربراہ ناتھن پورٹر نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستانی حکومت نویں جائزے کی تکمیل کے لیے آئی ایم ایف کی ضروریات کو پورا کرے گی۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام رواں سال جون میں ختم ہونے والا تھا۔ اب تک، 6.5 بلین ڈالر کے کل پیکج میں سے تقریباً 3.5 بلین ڈالر کی رقم ادا نہیں کی گئی۔ پاکستان ابھی تک 9واں جائزہ مکمل کرنے کے قابل نہیں تھا، جسے نظر ثانی شدہ شیڈول کے مطابق نومبر 2022 کے پہلے ہفتے میں مکمل کرنا تھا۔ اکتوبر-دسمبر 2022 کی مدت، جو 10ویں جائزے سے متعلق تھی۔