بنگلہ دیش میں شریف عثمان ہادی کی موت کے بعد بھارت مخالف احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔ ہادی گریٹر بنگلہ دیش کے پُر زور حامی اور بھارت مخالف موقف کے حامل طالب علم رہنما تھے۔ ان کے قتل نے عوام میں بھارت کے خلاف غصہ پیدا کیا، خاص طور پر بھارتی سفارتی مشنز کے سامنے مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین نے نہ صرف ہادی کے قتل کی مذمت کی بلکہ عوامی لیگ اور بھارت کے خلاف نعرے بھی لگائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت کی سیاسی دخل اندازی کے خلاف گہرا احساس موجود ہے۔
অনন্ত অসীমে যাত্রা যে তার,
বারিয়াছে দেনা হে বিপ্লবী তোমার।
শহীদ আবরার ফাহাদ হেটেছিলেন যে আধিপত্য বিরোধী,
সেই পথেই হেটেছেন আমার ভাই শরীফ ওসমান হাদী।Osman Hadi will be with us forever. He will live on in our hearts.#WeAreOsmanHadi pic.twitter.com/skiJPcX0sW
— Hiccup 🇧🇩 (@Yours_Hiccup) December 18, 2025
ابتدائی زندگی اور پس منظر
شریف عثمان ہادی کی پیدائش 1991 میں نالچٹی، جھالاکاٹھی میں ہوئی۔ وہ ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس نے تعلیم اور نظم و ضبط کو اہمیت دی۔ ان کا بچپن اور نوجوانی کے تجربات انہیں انصاف، مساوات اور سماجی ذمے داری کے جذبے سے مالا مال کرتے رہے۔
تعلیم اور سیاسی شعور
انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے سیاسیات کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی کے دوران وہ طالب علمی تحریکوں اور سیاسی سرگرمیوں میں سرگرم ہوئے۔ 2010-2011 کے دوران سیاسی شعور اور قیادت کی تربیت حاصل کی، جس نے انہیں بعد میں نوجوان تحریکوں کا نمایاں رہنما بنایا۔
یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش: قاتلانہ حملے میں زخمی طلبہ تحریک کے رہنما عثمان ہادی دوران علاج چل بسے
طالب علمی کی سرگرمیاں اور جولائی 2024 کی تحریک
2024 میں ہادی نے طالب علم احتجاجات میں مرکزی کردار ادا کیا۔ انہوں نے انصاف اور شفاف قیادت کے حق میں آواز بلند کی اور نوجوانوں کی توانائی کو منظم کیا۔ جولائی 2024 کی تحریک کے دوران انہوں نے اپنی پارٹی ’انقلاب منچہ‘ کی بنیاد رکھی اور عوامی لیگ پر پابندی کی تحریک شروع کی، جس نے ملک گیر بحث کو جنم دیا۔
سیاسی کیریئر اور انتخابات
ہادی نے 2025 میں ڈھاکہ-8 حلقے سے آزاد امیدوار کے طور پر پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ ان کا مقصد نوجوان تحریک کی توانائی کو باقاعدہ سیاسی آواز میں تبدیل کرنا اور ملکی سیاسی نظام میں شفافیت لانا تھا۔
Inna lillahi wa inna illaihi raji'un.
We lost him the one who knew no fear. We couldn't save him; our intelligence failed us.
We failed to protect the man who always spoke the truth.💔#UsmanHadi #Bangladesh pic.twitter.com/DSyfFgbIGN
— 𝚃ɑ𝔯ⅈ𝖓✮🇧🇩🇵🇸 (@Tarin_71) December 18, 2025
حملہ اور موت
12 دسمبر 2025 کو بیجوی نگر، ڈھاکہ میں انتخابی مہم کے دوران موٹرسائیکل پر سوار حملہ آوروں نے انہیں گولی مار دی۔ وہ شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل ہوئے اور بعد میں سنگاپور کے ہسپتال میں علاج کے دوران انتقال کر گئے۔
بھارت کی کارروائی
بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق اس بات کے قوی شواہد موجود ہیں کہ عثمان ہادی کے قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ براہ راست ملوث ہے۔ بنگلہ دیشی پولیس نے عثمان ہادی پر حملہ کرنے والوں کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ حملہ آوروں میں مرکزی ملزم فیصل کریم مسعود اور اس کا ساتھی عالمگیر شیخ بھارت سے داخل ہوئے اور حملے کے بعد فرار ہو گئے۔ گرفتار کرنے کے لیے پانچ لاکھ ٹکا انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔
عثمان ہادی کی میراث اور عوامی حمایت
عثمان ہادی نوجوانوں کی تحریک، عوامی شراکت داری اور خودمختاری کی جدوجہد کی علامت بنے۔ وہ استاد اور مصنف بھی تھے، اور عوامی جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف کھل کر آواز بلند کرتے تھے۔

ان کے قتل نے واضح کر دیا کہ بنگلہ دیش میں بھارت کی سیاسی دخل اندازی کے خلاف عوام میں شدید غصہ اور مخالفت موجود ہے، اور نوجوان نسل ملک کی خودمختاری اور قومی شناخت کے لیے کسی بھی قیمت پر کھڑی ہے۔














