چند برس قبل ایک امریکی فوجی جریدے ‘آرمی ٹائمز’ میں ‘امریکی ریکروٹنگ کمانڈ’ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی، جس کے مطابق امریکا میں 3 کروڑ 30لاکھ امریکی نوجوانوں سے آرمی میں بھرتی ہونے کا پوچھا گیا تو صرف ایک لاکھ 36ہزار نوجوان شوق سے فوج میں بھرتی ہونا چاہتے تھے۔
امریکا میں ہر گزرتے برس فوج میں بھرتی سے انکار کرنے والوں کی شرح بڑھتی چلی جارہی ہے۔ شاید کوئی دن ایسا بھی آجائے کہ امریکی فوج کو بھرتی کے لیے شہروں اور دیہاتوں میں نوجوانوں کو اسی انداز میں پکڑنا پڑے، جیسے امریکی گورے براعظم افریقہ میں سیاہ فام نوجوانوں کو پکڑنا پڑتا تھا۔ پھر وہ انہیں غلام بنا کر اپنے ہاں لاتے تھے، ان سے بدترین مشقت کراتے تھے۔ امریکا میں سیاہ فاموں کی غلامی کا باب بہت طویل ہے۔
امسال 14اپریل کو امریکی ٹیلی ویژن چینل’فوکس نیوز’ نے خبر دی کہ امریکی بری فوج کو بھرتی کا ہدف پورا کرنے میں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔ 2022ء میں صرف 75فیصد ہدف پورا ہوسکا۔ باقی ماندہ25فیصد بھی حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ زیادہ سے زیادہ مالی لالچ دیا گیا، نئے بھرتی ہونے والوں کے معاوضے میں اضافہ کی نوید سنائی گئی، ان کے لیے بونس بڑھائے گئے لیکن 17سے24 برس کی عمر کے امریکی نوجوان کسی بھی طور فوج میں شامل ہونے کو تیار نہیں۔
اب ان امریکی جوانوں کی سن لیجیے، جو امریکی فوج میں بھرتی ہونے کی ‘غلطی’ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1999سے2010ء تک امریکی فوجی میں خودکشیوں کے اعدادوشمار میں مسلسل پریشان کن اضافہ دیکھنے کو ملا۔1999ء،2000، اور2001ء میں خودکشی کرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد بالترتیب 150، 153،153رہی۔ تاہم پھر اچانک اس میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔
اگلے 9برسوں میں تعداد سالانہ 300تک پہنچ گئی۔ سبب یہ تھا کہ اس عرصہ کے دوران امریکی فوجیوں کو افغانستان اور عراق میں جنگ کے لیے بھیجا گیا۔ افغان مزاحمت کاروں کے ہاتھوں موت کے خوف نے انہیں پاگل کردیا۔ بعدازاں جب امریکی فوج عراق اور افغانستان سے نکلتی گئی، خودکشیوں کی شرح بھی کم ہونا شروع ہوگئی۔ جنگوں میں شرکت حتٰی کہ فوج میں بھرتی ہونے کے بعد امریکی فوجیوں کی نفسیاتی کو لاحق ہونے والے نفسیاتی عوارض کا جائزہ لیا جائے تو الگ ہی ایک خوفناک کہانی دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہمارے ہمسائیہ ملک بھارت کی فوج میں بھی ایسے ہی مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔گزشتہ برس کے وسط میں بھارتی وزارت دفاع کی ایک رپورٹ دیکھنے کو ملی، جس میں بتایا گیا کہ گزشتہ 5 برسوں کے دوران 819فوجیوں نے اپنے آپ کو گولی مار کر ہلاک کرلیا۔ اپنے افسروں سے لڑائی جھگڑوں کے واقعات بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں جو بھارتی فوجیوں کی نفسیاتی کیفیت کی خوب عکاسی کرتے ہیں۔ البتہ جب پاکستان میں فوجی بھرتیوں کا موضوع شروع ہوتا ہے تو انسان دانتوں تلے انگلی دبالیتا ہے۔
فوج میں بھرتی کے خواہشمند لاکھوں میں ہوتے ہیں، اگلے مراحل سے گزر کر بنیادی عسکری تربیت پانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ نوجوان انٹر سروسز سلیکشن بورڈ (آئی ایس ایس بی) سے کامیاب ہونے والوں کی فہرست میں اپنا نام دیکھنے کے شدید خواہش مند ہوتے ہیں، اگر وہ ناکام رہیں تو ساری عمر ٹھنڈی آہیں بھرتے رہ جاتے ہیں۔
کیا کسی نے سنا کہ پاکستانی فوج کے کسی ایک سپاہی نے بھی خودکشی کی ہو؟ یا کسی نے ایسی کوئی رپورٹ پڑھی جس میں پاکستانی فوجیوں میں نفسیاتی عوارض کا ذکر ملتا ہو؟حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی رپورٹ نہیں، سبب یہ ہے کہ وہ جذبہ جہاد اور شوق شہادت کی سرمستی میں فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور پھر اسی جوش و جذبہ کے ساتھ فوج میں شب و روز گزارتے ہیں۔ پاکستانی فوج کے جوان نہ صرف نفسیاتی طور پر شاندار صحت مند ہوتے ہیں بلکہ اپنے ملک اور قوم کی حفاظت کی خاطر عجب جوش و جذبہ رکھتے ہیں۔ اقبال نے ایسی ہی سپہ کے بارے میں کہا تھا:
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
اور
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی
اور
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں
سوال یہ ہے کہ پاکستانی فوجی کیوں جوانی سے ادھیڑعمری حتیٰ کہ بڑھاپے تک اپنے پیارے خاندان سے دور رہتے ہیں، مشکل اور مشقت بھری زندگی گزارتے ہیں، وطن کا دفاع کرتے ہوئے، اپنی قوم کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے جسموں پر زخم کھاتے ہیں، اور اگر جان سے گزرنے کا وقت آجائے ہو تو وہ بھی بخوشی قربان کردیتے ہیں۔ زیادہ تنخواہیں اور مراعات لینے والی امریکی فوج عزم وہمت میں، جوش و جذبہ میں، دلیری اور بہادری میں، شہادت کی تمنا رکھنے میں پاکستان فوج کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔
جنگ ستمبر ہو یا جنگ 71، یا پھر معرکہ کارگل، پاکستان کے فوجی جوانوں کی دلیری کی داستانیں دشمن بھی اپنے سپاہیوں کو سناتا ہے۔کارگل میں شہید ہونے والے کرنل شیر خان کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ایک چوٹی ٹائیگر ہل پر اپنے 30 جوانوں کے ساتھ موجود تھے۔ دشمن فوج ایم پی ایس باجوہ نے اپنے فوجیوں کے ساتھ ٹائیگرہل واپس لینے کے لیے 8 بار کوشش کی، تاہم ہر بار اسے شدید جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ادھر کرنل شیرخان کو حکم ملا کہ وہ ٹائیگرہل چھوڑ دیں تاہم وہ اپنے جوانوں کے ساتھ ڈٹے رہے۔ اور پھر دشمن کے نویں حملہ میں وہ زخمی ہوئے۔ اس زخمی حالت میں بھی وہ دشمن سے لڑتے رہے۔ اور بالآخر شہادت کا مرتبہ پالیا۔
کرنل شیرخان کو آخر کس سوچ اور کس جذبہ نے ٹائیگر ہل پر استقامت کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کیا؟ وہ چاہتے تو اپنے افسر کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی جان بچا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ایسا ہی جذبہ دیگر شہدائے پاکستان کی کہانیوں میں ملتا ہے۔ انہوں نے ملک اور قوم کے دفاع کو اپنی جان سے زیادہ اہم سمجھا۔ آخر وہ ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا یہ عجب جذبہ نہیں ہے؟ قرون اولیٰ ہی میں ایسے جذبے پائے جاتے تھے۔
آج 9 مئی کو، باران رحمت میں بھیگتے اسلام آباد کی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے، اپنے دفتر کی طرف گامزن تھا، ہرسو شہدائے پاکستان کی تصویروں کی بہار تھی۔ پاک فوج کے شہدا بھی تھے، پاک فضائیہ کے بھی، ایف سی کے بھی، پولیس کے بھی۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی قوم کو دشمن سے محفوظ رکھنے کی کوششوں میں اپنی جانیں قربان کیں۔ ان میں اعتزاز حسن بھی تھا، ہنگو ( خیبر پختونخوا) کے ایک سکول کا طالب علم بھی تھا جس نے خود کش بمبار کو قابو کرنے کی کوشش میں اپنی جان قربان کردی۔ وہ بھی تو خودکش بمبار کو دیکھتے ہوئے کہیں ادھر ادھر ہوسکتا تھا ، اپنی جان بچا سکتا تھا لیکن اس نے دوسروں کو محفوظ رکھنے کی غرض سے اپنی جان قربان کردی۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟
پاکستان بھر کے شہدا کے جذبے ایسی ہی تھے۔ ہم ان کے ممنون احسان ہیں، پھر ہم ان کی تکریم کیوں نہ کریں؟؟ اور ایسا ہی جذبہ رکھنے والی باقی سپاہ سے محبت کیوں نہ کریں؟ گزشتہ دنوں پاکستان میں ایک سیاسی گروہ سے وابستہ چند افراد نے اپنے لیڈرکی محبت میں ان شہیدوں کی یادگاروں کی بے حرمتی کی، بھلا ایسے بھی ہوتے ہیں احسان فراموش؟ ان کے لیڈر کو لیڈر ہونے کا زعم ہے لیکن پرلے درجے کے ناسمجھ ہیں۔ پونے 4 برس حکومت کرکے بھی ریاستی اداروں کی اہمیت سمجھ نہ آسکی۔ اگر کل کلاں انہیں پھر حکومت مل گئی تو ملک و قوم کے دفاع پر مامور فوجی جوانوں کا سامنا کس منہ سے کریں گے؟