اسرائیل کی فوجی عدالت نے تین اسرائیلی مسلح فوجیوں کو ایک فلسطینی شہری کے ساتھ بدسلوکی اور واقعے کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم میں مختصر قید کی سزا سنائی ہے، جسے اسرائیلی فوج کی جانب سے اپنے ارکان کے خلاف ایک غیر معمولی سزا سمجھا جارہا ہے۔
اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں فلسطینی شہریوں کے مبینہ قتل کے سینکڑوں واقعات کی نہ تو تفتیش ہوئی اور نہ ہی انہیں سزا دی گئی، انسانی حقوق کی تنظیمیں باقاعدگی سے اسرائیل پر الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوجیوں کے مبینہ جرائم کے ایک چھوٹے سے حصے پر مجرمانہ کارروائیاں کرتا رہا ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق مذکورہ فوجیوں میں سے 2 کو بدسلوکی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے جب کہ تیسرے فوجی کو اپنے اختیار سے تجاوز کرنے اور شہری کی زندگی یا صحت کو خطرے میں ڈالنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ تین فوجیوں اور ایک چوتھے نے فلسطینی شخص کو فوجی فور وہیل ڈرائیو میں لیا اور دور دراز مگر نامعلوم مقام پر لے گئے۔ ڈرائیو کے دوران اور اس کے بعد متاثرہ شہری کے خلاف تشدد کا استعمال کرکے اسے چھوڑ دیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے تادیبی کارروائی بننے والے اپنے تینوں فوجیوں کی شناخت چھپاتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے اس واقعے کی معلومات اپنے کمانڈروں سے چھپائیں تاکہ انہیں تحقیقات شروع کرنے سے روکا جا سکے اور واقعے کی معلومات کے حوالے سے اپنے موقف کو مربوط بنایا جاسکے۔
دو اسرائیلی فوجیوں کو بدسلوکی کے جرم میں 60 دن قید کی سزا جب کہ تیسرے اسرائیلی فوجی کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے اور فلسطینی شہری کی زندگی اور صحت کو خطرے میں ڈالنے پر 40 دن کی سزا سنائی گئی ہے۔
اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ تینوں فوجیوں کی تنزلی کے علاوہ انہیں عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے پر اضافی معطل سزائیں بھی دی گئی ہیں۔
ایک چوتھا اسرائیلی فوجی، جس پر حملہ، بدسلوکی، سنگین حالات، دھمکیوں اور اضافی جرائم کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی ہے، ابھی تک مقدمہ زیر التواء ہے۔
اسرائیلی فوج کے 5 سالہ اعداد و شمار کے مطابق، جو انسانی حقوق کے گروپ یش دین نے 2017 سے 2021 تک حاصل کیے ہیں، اسرائیلی فوج کو اپنے مسلح فوجیوں کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف 1,260 مبینہ جرائم کی شکایات موصول ہوئیں، جن میں 409 فلسطینی شہریوں کے ماوراء عدالت قتل سے متعلق تھیں۔