جمال شاہ کے ’ہنرکدہ‘ نے 9 ستمبر 2006 کو ’ایک شام منیر نیازی کے نام‘ کر رکھی تھی۔ صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے پروگرام کے آخر میں ہنرکدہ پہنچا۔ وہاں مہمان خصوصی کی جانب سے منیر نیازی کی شاعرانہ خدمات کے اعتراف پر انہیں ایک لاکھ روپے کا چیک پیش کیا گیا۔ میں دل ہی دل میں جمال شاہ کی اس کاوش کا معترف تھا اور اسے اُس گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا سمجھ رہا تھا۔
وہاں محترمہ شبنم شکیل سے بھی ملاقات ہوئی، جو اپنی بیٹی اور بہو کا منیر نیازی سے تعارف کروا رہی تھیں۔ پرستاروں کے بادل چھٹنے کے بعد میں نے منیر نیازی صاحب سے جا کر ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کروایا۔ ان کی مسکراہٹ نے میرے شائبے کو تقویت دی کہ وہ میری ٹیلی فونک گفتگو یاد رکھے ہیں۔

جہاں مجھے ان سے بالمشافہ ملاقات کی خوشی تھی، وہیں میں ان کی صحت کے حوالے سے پریشان بھی تھا۔ منیر نیازی نہ صرف بہت آہستگی سے بول رہے تھے بلکہ سننے میں بھی مشکل محسوس ہو رہی تھی۔ دوبار پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں رکنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور کچھ دیر بعد لاہور واپسی کا پروگرام پہلے سے طے شدہ ہے۔
میں ان کی نشست کے قریب بینچ پر بیٹھا تھا۔ میں نے آٹوگراف لینا چاہا، تو انہوں نے آہستگی سے کہا: ’ایسا نہ کریں، میں کئی لوگوں کو جواب دے چکا ہوں۔ اگر آپ کو آٹوگراف دیا تو مجھے مشکل ہوگی، اور ویسے بھی ابھی اس حالت میں نہیں ہوں کہ کچھ لکھ سکوں۔‘ میں نے ڈائری بند کی اور ان سے انٹرویو کے لیے وقت مانگا، تو وہ مسکرائے اور جلد لاہور میں ملاقات کا وعدہ کرلیا۔
’جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا نہیں سکتے
اس نے وعدہ کرلیا، میں نے بھی وعدہ کرلیا‘

ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تو وہ کافی ٹھنڈا تھا۔ اس پر مجھے ان کی پنجابی نظم ’فراق دی اِک رات‘ یاد آئی، جو میں نے فوراً سنائی:
’لمبی رات فراق دی
جیویں ٹھنڈی سِل
چڑھیا چن اَسمان تے
کنبن لگا دل‘

نظم سن کر ان کے چہرے پر جو رونق آئی، وہ قابل دید تھی اور میری یادداشت کا انمول اثاثہ بن گئی۔ منیر نیازی صاحب نے جواباً اپنی ایک اور نظم سنائی، جس کا عنوان (ہَوا نال ٹکراں) مجھے معلوم نہیں تھا، لیکن مصرعے میری ڈائری میں درج ہیں:
’اُپر قہر خدا میرے دا
ہیٹھاں لَکھ بلاواں
سب راہواں تے موت کھلوتی
کیہڑے پاسے جاواں‘

یہ مصرعے آج بھی میری سماعت میں گونجتے ہیں۔ اگر وقت واپس لایا جا سکتا، تو میں انہیں اسی نظم کے جواب میں ان کی ہی ایک نظم ’اِک موقع تے‘ سناتا:
’ایڈیاں دَردی اَکھّاں دَے وِچ
ہنجّو بھرن نہ دَیواں
وَس چلے تے اِس جہان وِچ
کِسے نُوں مَرن نہ دَیواں
منیر نیازی 26 دسمبر 2006 کو لاہور میں دل کے دورے سے وفات پا گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت نہ رکتا ہے، نہ واپس آتا ہے۔۔۔ اور جیسا کہ وہ خود کہتے تھے: ’وقت سے آگے نکل جانے کی سزا یہ ہے کہ آدمی اکیلا رہ جاتا ہے۔‘

آج ہم اردو اور پنجابی کے عظیم شاعر کی 19ویں برسی منا رہے ہیں۔ خدائے ذوالجلال انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔
’منیر نیازی سے آخری ملاقات‘ سے اقتباس
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













