بالآخر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کا عمل مکمل ہو گیا ایک ایسا فیصلہ جس پر برسوں بحث ہوتی رہی جسے کبھی سیاسی نعرہ اور کبھی قومی اداروں کی فروخت قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا حقیقت یہ ہے کہ طویل عرصے سے پاکستان کے بارے میں یہ تاثر مضبوط ہو چکا تھا کہ باوجود بھاری نقصانات کے حکومتیں قومی اداروں کی نجکاری میں سنجیدہ نہیں ہوتیں بلکہ انہیں سیاسی مقاصد، ملازمتوں کی بندربانٹ اور وقتی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اسی تاثر کے باعث پاکستانی اور غیر ملکی سرمایہ کار نجکاری کے عمل میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔
اس سے قبل پی آئی اے کی نجکاری کی ایک کوشش ناکام بھی ہوچکی ہے جس نے اس بداعتمادی کو مزید تقویت دی۔ تاہم، حالیہ نجکاری محض اعلان نہیں بلکہ ایک عملی اقدام کے طور پر سامنے آئی ہے جس نے عالمی اور ملکی سرمایہ کاروں کے پاکستان کی حکومت پر اعتماد میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
حالیہ نجکاری میں پی آئی اے کے 75 فیصد حصص 135 ارب روپے میں فروخت کیے گئے جبکہ کل مالیت کا تخمینہ 180 ارب روپے تھا بقیہ 25 فیصد حصص حکومت کے پاس ہیں جن کی مالیت 45 ارب روپے بنتی ہے مزید یہ کہ نیلامی کی رقم میں سے 10 ارب روپے ملنے کے بعد حکومت کے پاس مجموعی طور پر 55 ارب روپے موجود رہیں گے اور اگر بقیہ 25 فیصد حصص کی بھی نجکاری کر دی جاتی ہے تو ان دس ارب کے علاوہ 45 ارب روپے حکومت کو مزید حاصل ہوں گے۔
نجکاری کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ نیلامی کی رقم کا 92.5 فیصد حصہ کامیاب بولی دہندہ پی آئی اے کی بہتری، توسیع اور آپریشنل استعداد میں استعمال کرے گا اسی تناظر میں نجکاری کمیشن نے کنسورشیم سے پی آئی اے کے مستقبل کے حوالے سے تفصیلی بزنس پلان پر بھی بات چیت کی ہے۔
اس وقت پی آئی اے کے 18 طیارے آپریشنل ہیں، جبکہ آئندہ چار سال میں 38 طیاروں کو آپریشنل کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ سالانہ 40 لاکھ مسافروں کی تعداد کو بڑھا کر 70 لاکھ تک لے جانے اور موجودہ 250 ارب روپے سالانہ ریونیو کو 500 ارب روپے تک پہنچانے کا ہدف بھی اسی بزنس پلان کا حصہ ہے۔ موجودہ طیاروں کی بہتری اور نئے طیاروں کے اضافے سے معیارِ خدمت اور پی آئی اے کی ساکھ میں واضح بہتری متوقع ہے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ پی آئی اے کی ہولڈنگ کمپنی کی ملکیت پیرس کا سکرائب ہوٹل اور نیویارک کا روز ویلٹ ہوٹل نجکاری کا حصہ نہیں ہیں بلکہ حکومت کی پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے پاس ہی رہیں گے۔ سکرائب ہوٹل کے بارے میں حکومتی پالیسی ہے کہ اسے موجودہ انداز میں چلایا جاتا رہے جبکہ سولہ منزلہ روز ویلٹ ہوٹل کے بارے میں کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی نیو یارک رجسٹرڈ ڈویلپر کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے ذریعے یہاں ایک بلند عمارت تعمیر کی جائے اس منصوبے سے پراپرٹی کی مالیت میں اڑھائی گنا اضافہ اور پاکستان کو مستقل بنیادوں پر معقول کرایہ حاصل ہوگا۔
پی آئی اے کی نجکاری کو اب ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے نجکاری کمیشن کے پاس نجکاری کی فہرست میں پہلے سے موجود اداروں جن میں زرعی ترقیاتی بینک، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور بجلی کی نو تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکوز) شامل ہیں کی نجکاری میں اب زیادہ اعتماد اور عملی سنجیدگی کے واضح امکانات پیدا ہو چکے ہیں۔ تاہم، پی آئی اے کے عملی فیصلے نے اس پورے عمل کو رفتار ضرور دی ہے منصوبہ بندی کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں سے پہلے مرحلے میں تین ڈسکوز کی نجکاری سے آغاز کیا جائے گا اور قوی امید ہے کہ سرمایہ کار اس عمل میں بھرپور حصہ لیں گے۔
حکومت نے اسلام آباد، کراچی اور لاہور ائیرپورٹس کو عالمی معیار کا بنانے اور ان کے بہتر استعمال کے لیے نجی شعبے کو شریک کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے اور یہ تینوں ائیرپورٹس نجکاری کمیشن کے حوالے کیے جا چکے ہیں اس اقدام سے نہ صرف ائیرپورٹس کا معیار بہتر ہوگا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور آمدن میں بھی اضافہ ہوگا یہاں یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تعمیر میں طویل تاخیر کے بعد 2013 سے 2018 کے دوران مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے خصوصی توجہ دیتے ہوئے اس منصوبے کی تکمیل ممکن بنائی جس سے اخراجات کا سلسلہ رکا اور ائیرپورٹ کے فعال ہونے سے آمدن کا آغاز ہوا۔
مجموعی طور پر پی آئی اے کی نجکاری محض ایک ادارے کی فروخت نہیں بلکہ ریاستی معیشت کی سمت درست کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے اگر یہی شفافیت، تسلسل اور عملی رویہ برقرار رہا تو یہ فیصلہ واقعی ایک راست اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













