ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اتوار کو ہونےوالے رن آف ووٹ میں ملک کی تیسری مرتبہ باگ ڈور ہاتھ میں لینے کے لیے پر امید دکھائی دے رہے ہیں، وہ دو دہائیوں سےترکیہ کے حکمران چلے آ رہے ہیں۔
عالمی تجزیاتی رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ رجب طیب اردوان کو اب تیسری مرتبہ ملک کی باگ ڈور ہاتھ میں لینے کے لیے محض اتوار کے عام صدارتی انتخابات کا ہی انتظار ہے کیوں کہ انہیں اپنے مخالف امیدوار پر برتری حاصل ہو تی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ رجب طیب اردوان کو اپنے حریف کمال قلیچ دار اوغلو پر 14 مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں پہلے سے ہی ووٹ کے حساب سےبرتری حاصل ہے۔
رجب طیب اردوان کو اپنے حریف پر دوسری برتری یہ ہے کہ 14 مئی کے پارلیمانی انتخابات میں ان کی اسلامک پارٹی (اے کے) کا اتحاد پارلیمان میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والا اتحاد ہے۔ ان کی جماعت اس وقت پارلیمان میں سب سےزیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت ہے، اس کے مثبت اثرات بھی طیب اردوان کے صدارتی انتخابات پر پڑنے والے ہیں اور وہ اس پر بہت خوش بھی ہیں۔
رجب طیب اردوان کے لیے تیسری سب سے بڑی حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ان کے صدارتی انتخابات میں ان کے مد مقابل تیسرے قوم پرست امیدوار اوگان نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اوگان صدارتی انتخابات میں 5 فیصد ووٹ حاصل کر پائے تھے اور اب یہ 5 فیصد ووٹ طیب اردوان کو ملنے والے ہیں۔ جب کہ ان کوالیکشن جیتنے کے لیے ایک فیصد سے بھی کم ووٹ چاہئیں۔
28 مئی اتوار کو ہونے والے انتخابات میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ آئندہ ترکیہ کی قیادت کون کرے گا؟ اور وہ کیسے حکومت کو سنبھال پائے گا جس کی معاشی صورت حال اس وقت ابتر نظر آ رہی ہے، نئے منتخب ہونے والے صدر کو کئی چیلنجز کا بھی سامنا ہو گا۔
طیب اردوان کے مد مقابل امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو کو اس وقت اپنی ری پبلیکن پارٹی (سی ایچ پی) کے علاوہ 6 جماعتی اتحاد کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔
جدید ترکیہ پر سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے رجب طیب اردوان اس وقت خطے میں ترکی کے اثر و رسوخ کو بڑھانے۔ مغربی ممالک خصوصا نیٹو کے رکن ممالک کے ساتھ تعلقات میں نرمی پیدا کرنے اور اسلامی تعلیمات کو پھیلانے اور کم شرح سود کو کم کرنے جیسے اقدامات کے باعث عوام میں مقبول ہیں۔
واضح رہے کہ یہ یہ انتخاب جنوب مشرقی ترکیہ میں آنے والے خوفناک زلزلے کے تین ماہ بعد ہو رہے ہیں جس میں 50,000 سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
ترکیہ کے لیے خطرہ کیا ہے؟
رجب طیب اردوان ایک صدی قبل جدید ترک جمہوریہ کی بنیاد رکھنے والے مصطفی کمال اتاترک کے بعد سب سے طاقتور راہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اردوان اور ان کی ’اے کے‘ پارٹی نے ترکیہ کو اتاترک کے سیکولرنظام سے دور کر کے اسلامی نظام کے قریب تر کر دیا ہے۔
اردوان نے صدارتی نظام رائج کر کے اختیارات کو مرکزی حیثیت دے دی جس نے ترکیہ کے اقتصادی، سلامتی، ملکی اور بین الاقوامی امورمثبت اور گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
رجب طیب اردوان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے اختلاف رائے کی آزادی کو سلب کیا ہے، انسانی حقوق سلب کیے ہیں اور عدالتی نظام کو اپنے ماتحت کر دیا ہے، لیکن رجب طیب اردوان سمیت ترکیہ کے دیگر اعلیٰ حکام ان الزامات کی مکمل تردید کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ طیب اردوان نے 2016 کی بغاوت کی کوشش کو کچلا ہے جس سے ملک میں سیکیورٹی خطرات کم ہوئے اور ترکیہ کے عوام کو تحفظ ملا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ رجب طیب اردوان کی جانب سے شرح سود کم کرنے کے بعد گزشتہ سال افراط زر کی شرح 24 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 85 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ دہائی کے دوران لیرا کی ڈالر کے مقابلے میں قدر 10 فیصد کم ہو گئی۔
رجب طیب اردوان پر باقی دُنیا سے عدم تعاون کا الزام
رجب طیب اردوان پر یہ بھی الزام ہے کہ ان کی قیادت میں ترکی نے مشرق وسطیٰ اور اس سے باہرفوجی طاقت کو بڑھایا ہے۔ ان کی قیادت میں ترکیہ نے شام میں چار حملے کیے ہیں، عراق کے اندر کرد عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں اور لیبیا اور آذربائیجان کو فوجی مدد بھیجی ہے۔
ان پر یہ بھی الزام ہے کہ ان کی قیادت میں ترکیہ نے علاقائی طاقتوں سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی خراب کیے ہیں۔اس کے علاوہ مشرقی بحیرہ روم کی سمندری حدود پر یونان اور قبرص کے ساتھ بھی تعلقات خراب ہوئے ہیں۔
اردوان کی جانب سے روس سے فضائی دفاعی سازوسامان کی خریداری کے معاہدے باعث امریکہ نے ترکیہ کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پاپندی عائد کر دی، جب کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن سے ان کی قربت نے بھی ناقدین کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے ترکی کے تعلقات پرسوال اٹھائے ہیں۔ ترکی کی طرف سے سویڈن اور فن لینڈ کی جانب سے نیٹو کی رکنیت کی درخواستوں پر بھی انقرہ کے اعتراضات نے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
رجب طیب اردوان نے یوکرائن کی گندم کی برآمدات کےلیے ایک معاہدے میں ثالثی کی جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ طیب اردوان نے یوکرائن جنگ بندی کی کوششوں کی بھی حمایت کی۔ اب ناقدین کا کہنا ہے کہ کیا طیب اردوان ایسی پالیسیوں کو لے کرترکی کو کوئی عالمی مقام دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اپوزیشن کیا وعدہ کر رہی ہے؟
ادھر کمال قلیچ دار اوغلو کے حمایت یافتہ اتحاد نے رجب طیب اردوان کی انہی پالیسیوں کو نشانہ بنایا ہے کہ عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر سب سے پہلے اقتصادی اصلاحات لائیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں نے مرکزی بینک کی آزادی بحال کرنے اور اردوان کی بقول ان کے غیر روایتی اقتصادی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا عہد کیا ہے۔ وہ سابقہ پارلیمانی نظام کے حق میں اس کی ایگزیکٹو صدارت کو بھی ختم کر نے اور شامی مہاجرین کو واپس بھیج دینے کا وعدہ کیا ہے۔
کمال قلیچ دار اوغلو کا اتحاد امریکہ سمیت مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا اور ترکی کو F-35 لڑاکا جیٹ پروگرام میں واپس لانے کے بھی وعدہ کر رہا ہے۔ اپوزیشن اتحاد روسی میزائل ڈیفنس خریدنے کے بھی خلاف ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے جن پالیسیوں کا وعدہ کیا گیا ہے وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ رجب طیب اردوان پرشام کے صدر بشارالاسد کی حکومت گرانے کا بھی الزام ہے۔ جب کہ اردوان کی حکومت نے کم از کم 3.6 ملین شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے ان پناہ گزینوں کو ترکی کی معیشت پر بوجھ قرار دیا جا رہا ہے۔
قوم پرست رائے دہندگان کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ رن آف ووٹ میں کامیابی کے لیے کمال قلیچ دار اوغلو نے پچھلے دو ہفتوں میں غیر ملکی پناہ گزینوں کے خلاف اپنے لہجہ میں مزید کرختگی لائی ہے اور ترکیہ عوام سے ان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔
جیت کی دوڑ میں کون قریب ہے؟
کمال قلیچ دار اوغلو کو 14 مئی کے پہلے راؤنڈ میں 44.9% ملے جب کہ رجب طیب اردوان کو 49.5% ووٹ ملے۔ کہا جا رہا ہے کہ قلیچ دار اولو بھرپور مہم جوئی کے باوجود اپنے ووٹ بینک میں مزید اضافہ کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہوئے ہیں
طیب اردوان کو ایک بڑی کامیابی اس وقت ملی ہے کہ 14 مئی کے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل مخالف امیدوار اوگان جنھوں نے 5 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، نے بھی رجب طیب اردوان کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جس سے ان کی پہلے سے مستحکم پوزیشن مزید بہتر ہوئی ہے۔