اڑتی چڑیا کے پر گن کر شاید کوئی تیس مار خاں آپ کو بتا ہی دے لیکن اڑتے جہاز کا دروازہ کھول لینا ممکن نہیں۔ ہاں اگر خود سے جہاز کا دروازہ یا چھت ٹوٹ جائے اور پھر مسافروں پر یہ محاورہ صادق آئے کہ “ہائے ہمارے سر پر چھت نہ رہی” تو پھر معاملہ مختلف ہے۔ جی ہاں ایسا 1988 میں الوہا ائیرلائن کی پرواز کے ساتھ ہو چکا ہے جب دورانِ پرواز جہاز کی چھت کا ایک حصہ الگ ہو کر فضا میں بکھر گیا تھا۔
دنیا کے تمام مسافر بردار جہازوں میں پرواز کے دوران عملے کے اراکین کو ایک ایک دروازے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے جس کے قریب ہی ہنگامی نشست (Jump Seat) پر وہ ٹیک آف اور لینڈنگ کے دوران لازماً موجود ہوتے ہیں اور پرواز کے دوران بھی وہاں بیٹھ سکتے ہیں۔
ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والے دروازوں کے قریب موجود نشستیں مسافروں کو دینے سے پہلے یہ یقین دہانی کی جاتی ہے کہ یہ نشستیں ان لوگوں کو نہ دی جائیں جنہیں حرکت کرنے کے لیئے دوسروں کی مدد درکار ہو۔ اس کے علاوہ اس فہرست میں حاملہ خواتین اور 15 سال سے کم عمر بچے بھی آتے ہیں۔ ہر ائیرلائن اپنے قوانین کے مطابق اس فہرست میں اضافہ بھی کر سکتی ہے کہ کن لوگوں کو یہ نشستیں دینی چاہیئں اور کن کو نہیں۔
دورانِ پرواز جہاز کا دروازہ کھولنا ناممکن ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جہاز کے اندر ہوا کا دباؤ مصنوعی طریقے سے بڑھا دیا جاتا ہے اور جہاز کے باہر گزرتی ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے۔ یوں بنیادی طور پر جہاز کا دروازہ جہاز کے باڈی فریم کے اندر پیوست/ سیل ہو جاتا ہے۔ دباؤ کا اندازہ ایسے لگائیں کہ 1 اسکوئر میڑ پر 5500 کلو گرام کا پریشر ہوتا ہے۔
ویسے تو جہاز کا عملہ دروازوں کے آس پاس موجود رہتا ہے لیکن جہاز اترنے سے تقریباً 10 منٹ پہلے پائلٹ کے اعلان کے ساتھ ہی تمام عملے کو اپنی اپنی نشستیں سنبھال لینی ہوتی ہیں۔ اس سے پہلے تمام مسافروں کو حفاظتی بند بندھوا دیے جاتے ہیں اور بیت الخلاء بھی دیکھ لیے جاتے ہیں کہ کوئی “نشاطِ کار” میں مبتلا شخصیت اندر تنہا نہ رہ گئی ہو۔
ایک “جان باز” جوان جس کا نام مقامی پولیس کے مطابق “لی” بتایا جاتا ہے، نے پچھلے ہفتے ساؤتھ کوریا میں لینڈنگ سے پہلے جہاز کا دروازہ کھول کر انعام میں دس سال قید کی سزا پانے کی یقینی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ایوی ایشن ماہرین بھی حیران ہیں۔
جب ہم یہ بات کہ چکے ہیں کہ اڑتے جہاز کا دروازہ نہیں کھولا جا سکتا تو “لی” کے پاس آخر ایسی کون سی طاقت تھی اور اس کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ یہ نا قابلِ یقین کام سر انجام دے بیٹھا۔پائلٹ جب زمین پر اترنے کے لیے جہاز کی بلندی کم کرنا شروع کرتے ہیں تو خود کار نظام کے تحت جہاز میں قائم کردہ مصنوعی دباؤ بھی کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اس لیے تا کہ لینڈنگ کے بعد جہاز کے اندر اور باہر موجود ہوا کا دباؤ برابر ہو جائے۔
جب 30 سالہ “لی” یہ کارستانی کر رہا تھا تو اس وقت جہاز زمین سے تقریباً 250 میٹر / 700 فٹ کی دوری پر تھا اور رن وے پر اترنے ہی والا تھا۔ جہاز کے کیبن اور باہر موجود ہوا کا دباؤ تقریباً ایک ہونے کی وجہ سے وہ دروازہ کھول پایا۔
عینی شاہدین کے مطابق دروازہ کھل جانے سے لوگ ایک ایک کر کے بے ہوش ہو رہے تھے۔ اس کی وجہ Hyperventilation تھی۔ اس کا مطلب زیادہ اور تیزی سے سانس لینا ہے۔ ایسا گھبراہٹ میں اور بے چینی کے نتیجے میں ہوتا ہے۔
اس حوالے سے موجود خبروں کے مطابق یہ شخص اپنی نوکری سے نکالے جانے کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ میرے خیال سے اس کا ذہنی دباؤ جہاز میں موجود ہوا کے دباؤ سے بڑھ گیا تھا چناںچہ وہ جہاز کا دروازہ کھول بیٹھا۔ یہ سب شاید اتنی تیزی سے ہوا ہو گا کہ دروازے پر موجود فضائی عملہ اس کو روک ہی نہ پایا کیوں کہ وہ شخص بالکل دروازے کی ساتھ والی نشست پر بیٹھا تھا۔
اگر ایسا کبھی آپ کے ساتھ ہو جائے تو آپ کیسے بچ سکتے ہیں؟
پندرہ سال بطور فضائی میزبان کام کرنے کے بعد میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایسے تمام ایمرجنسی مواقع پہ حواس قابو میں رکھنے اور بے ہوشی سے بچنے کے لیے سب سے پہلے وہ کاغذ کا تھیلا آپ اپنے سامنے والی نشست کی جیب سے نکال لیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’متلی ہونے کی صورت میں اسے استعمال کیا جائے۔‘
ہائپر وینٹیلیشن یا ہوا کے زیادہ دباؤ سے بچنے کے لیے اس تھیلے کو ناک کے اوپر رکھ کے اس میں سانس لینا شروع کر دیں۔ یہ عمل آپ کے جسم میں آکسیجن کے بہاؤ کو متوازن رکھنے میں مدد دے گا اور آپ فوری بے ہوشی سے بچ سکیں گے۔
لیکن یہ سب ممکن تب ہی ہو گا کہ اگر آپ نے حفاظتی بند باندھے ہوئے ہوں گے، اسی لیے زیادہ سفر کرنے والے تجربہ کار مسافر دوران پرواز ہر وقت بیلٹ باندھے رکھتے ہیں کہ ایمرجنسی کا وقت بتا کر نہیں آتا۔
آخری بات یہ کہ ’مسٹر لی‘ والی خبر جا کے دوبارہ پڑھ لیں، آپ دیکھیں گے کہ اس جہاز میں بھی وہی مسافر کچھ بہتر حال میں رہے جنہوں نے بیلٹ باندھی ہوئی تھی۔