یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ 9 مئی کے بعد ملک کی سیاست بدل گئی ہے۔ عمران خان کا من گھڑت اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ دھڑام سے مسمار ہوگیا ہے۔ جو کچھ اس تاریخ کو ہوا، اب اس کا دفاع کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ چاہے وہ تحریک انصاف کے کارکن ہوں، قائدین ہوں یا سہولت کار ہوں۔ خان سے ایسی سنگین غلطی ہوگئی ہے جس پر ہر کوئی تنقید کر رہا ہے۔ وہ لوگ جو کبھی عمران خان کو اپنا ہیرو مانتے تھے، 9 مئی کے واقعات کے بعد عمران خان کو ایک ولن کا درجہ دے رہے ہیں۔ ایک ایسا ولن جس کا مقصد نہ صرف افواج پاکستان کو بدنام کرنا ہے بلکہ ریاست پاکستان کو نقصان بھی پہنچانا ہے۔
عمران خان کی اس سنگین غلطی کے بعد ملک کے چاروں اطراف سے ایسا عوامی ردِعمل سامنے آیا جس کا اس سے پیشتر کبھی پی ٹی آئی کو سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اب صورتحال یہ ہے جو پی ٹی آئی کے گن گاتے تھے، وہی اس پر تنقید کر رہے ہیں۔ جو خان کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے تھے وہی اس کی زہریلی سیاست پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ اس ساری تبدیلی کا سبب ہماری تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب شہدا کی تصاویر کو بھی نذرِ آتش کیا گیا۔ قومی یادگاروں کو پاؤں تلے روندا گیا اور فوج کی تنصیبات پر حملہ کیا گیا۔
یہ حملہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے ایک برس کی منصوبہ بندی تھی۔ کارکنوں کی ذہن سازی اس طرح کی گئی تھی کہ اہم تنصیبات پر حملہ کریں، اہم شاہراہوں کو بند کریں، معصوم عوام کی گاڑیوں کو توڑ پھوڑ دیں، پاک فوج کے سپاہیوں پر پتھر پھینکیں۔ شجاعت کے نشانوں اور علامتوں کو بھی آگ لگا دیں۔
عمران خان نے یہ منصوبہ بہت کامیابی سے مکمل کیا اور اپنے تئیں وہ اس سازش میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن ان واقعات کو دیکھنے کے بعد عوام کی طرف سے جس ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔
عمران خان سمجھ رہے تھے کہ ان کے بلوائیوں کی ان حرکتوں پر عوام کی جانب سے ان کو داد و تحسین ملے گی، ان کی بہادری کے قصیدے پڑھے جائیں گے اور انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ مہم کا استعارہ سمجھا جائے گا۔ لیکن عوامی ردِعمل اس سے بالکل برعکس تھا۔ عوام نے مجموعی طور پر اس طرزِ سیاست کو رد کیا اور عمران خان کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے بجائے اینٹی اسٹیٹ کا درجہ دیا۔
پی ٹی آئی اس کے لیے تیار نہیں تھی لیکن انہی کے شاطر ذہنوں نے اس موقع پر اپنی توپوں کا رخ فوج کی موجودہ قیادت کی طرف موڑ دیا اور اپنی کوتاہیوں کا دوش فوج کو دینا شروع کردیا۔ عمران خان کے حواریوں کی ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ وہ کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے اور الزام ہی کو دلیل مانتے ہیں۔ اس وقت بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
اس خاص نقطہ نظر سے پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے جو عوام اور فوج کے درمیان خیلج پیدا کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔
پی ٹی آئی کے جو لیڈر بھی پارٹی چھوڑ رہے ہیں اس کی اصل وجہ یہ نہیں کہ انہیں کہیں سے نادیدہ لوگوں کے فون آرہے ہیں بلکہ اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ کوئی بھی محب وطن شخص 9 مئی کے واقعات کا دفاع نہیں کرسکتا۔
عمران خان نے جو نفرت کا پودا لگایا اور اس پر ان کے سوشل میڈیا نے پیٹرول چھڑکا وہ اب عیاں ہوچکا ہے۔
پی ٹی آئی قیادت کے ’میر جعفر، میر صادق، ڈرٹی ہیری، مسٹر ایکس، مسٹر وائے۔ نیوٹرل جانور ہوتا ہے‘ کے بیانیے سے سادہ لوح عوام کے ذہن میں نفرت کے جذبات پیدا ہوئے اور اس کا عمران خان نے 9 مئی کو فائدہ اٹھایا۔ اپنے کارکنوں کو ورغلا کر ان سے 9 مئی کا سانحہ بپا کروایا گیا۔ ان کے ذہنوں میں اس طرح اشتعال ڈالا گیا کہ وہ 9 مئی کے وقعات کو اپنا نصب العین سمجھنے لگے۔
پی ٹی آئی کے اندرونی حلقے اب بھی مجرمانہ ذہن سے 9 مئی کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ناقابلِ یقین اور ناقابل برداشت سانحہ ہے جس پر پاکستان کے عوام کو رنج ہے۔
المیہ یہ ہے کہ 9 مئی کے واقعات کی عمران خان اور پی ٹی آئی کی تمام قیادت نے کبھی مکمل طور پر مذمت نہیں کی بلکہ ان واقعات کو نیا رنگ دینے لیے کبھی انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کبھی اس کی ذمہ داری انہی پر ڈالتے ہیں جن کے شہدا کی توہین کی گئی تھی۔
حالانکہ عمران خان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں۔ بلوائیوں کی سیاسی وابستگی کا پتہ چل چکا ہے۔ انتشار کے احکامات کس نے دیے۔ اس کا جواب کیمروں میں ناقابلِ تردید ثبوت کے طور پر محفوظ ہے۔
ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پی ٹی آئی کی قیادت اس بھیانک جرم کو نیا رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے مگر حکومتی ادارے اور عوام اس واقعہ کو قانون کے اندر رہتے ہوئے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
عوام کی اکثریت کو 9 مئی کے واقعات پر جتنا زیادہ رنج ہوا ہے اس کے نتیجے میں ادارے اور قانون نافذ کرنے والے زیرو ٹالرنس کے اصول پر 9 مئی کے مجرمان کو قرار واقعی سزا دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پی ٹی آئی کا پراپیگنڈا سیل ہے۔
9 مئی کے سانحے کے بعد اس ملک کے باسیوں کی سوچ میں بہت فرق آگیا ہے۔ اب عمران خان ان کا نجات دہندہ نہیں بلکہ انتشار پھیلانے والا بن کر سامنے آیا ہے۔ اس سانحے کے بعد جو ردِعمل عوام کی جانب سے آیا، اس سے واضح ہوچکا ہے کہ پاکستان کے عوام کی ریڈ لائن پاکستان کا سبز ہلالی پرچم، افواجِ پاکستان اور شہدا کی حرمت ہے۔