چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ ’جماعتِ اسلامی کے حافظ نعیم الرّحمٰن میئر کراچی کے لیے بہترین امیدوار ہیں‘۔
عمران خان نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’موجودہ حالات میں جماعتِ اسلامی کے حافظ نعیم الرّحمٰن میئر کراچی کے لیے بہترین امیدوار ہیں۔ میری کراچی میں تحریک انصاف کے تمام منتخب کونسلرز سے اپیل ہے کہ میئر کے انتخاب میں حافظ نعیم الرّحمٰن کو ووٹ دیں‘۔
موجودہ حالات میں جماعتِ اسلامی کے حافظ نعیم الرّحمٰن میئر کراچی کیلئے بہترین امیدوار ہیں۔ میری کراچی میں تحریک انصاف کے تمام منتخب کونسلرز سے اپیل ہے کہ میئر کے انتخاب میں حافظ نعیم الرّحمٰن کو ووٹ دیں۔ pic.twitter.com/w2Lzhz2N8f
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) June 1, 2023
کراچی: میئر کا انتخاب کون جیتے گا؟
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اراکین کی تعداد 246 براہ راست اور 6 کیٹگری کی 121 مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخاب کے بعد 367 تک پہنچ جائے گی۔
ایوان میں 1 فیصد خواجہ سرا (2 خواجہ سرا)، 1 فیصد خصوصی افراد (2 خصوصی افرد)، 33 فیصد خواتین (81 خواتین)، 5 فیصد نوجوان (12 نوجوان)، 5 فیصد مزدور یا کسان (12 افراد) اور 5 فیصد اقلیت (12 افراد) کی نشستیں مخصوص ہیں۔
پیپلز پارٹی نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے کراچی کی سب سے بڑی، جماعت اسلامی دوسری اور تحریک انصاف تیسری بڑی جماعت ہے مگر میئر کراچی کے لیے 179 ووٹ کی سادہ اکثریت کسی کے بعد بھی نہیں ہے، یعنی کوئی بھی پارٹی تنہا حیثیت میں شہر قائد کی کرسی حاصل نہیں کر سکتی۔
پیپلز پارٹی کو جے یو آئی اور نون لیگ کے اتحاد کے بعد بھی کم از کم 22 نشستیں درکار ہوں گی جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اتحاد کرکے باآسانی میئر کا امیدوار لاسکتے ہیں۔
سیاسی ماہرین کہتے ہیں میئر کراچی کے لیے پیپلز پارٹی کے امکانات روشن ہیں مگر اس کے لیے جوڑ توڑ کرنا ہوگا۔ اس وقت تک حاصل ہونے والی پارٹی پوزیشن کے مطابق پیپلز پارٹی کو اکثریت کی بنیاد پر 32 خواتین، 5 نوجوان، 5 مزدور، 5 اقلیت اور، 1 معذور اور 1 خواجہ سرا کی نشستیں ملیں گی جس کے بعد سٹی کونسل میں پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد 144 ہونے کا امکان ہے۔
جماعت اسلامی کو 28، نوجوان کی 4، مزدور کی 4، اقلیت کی 4 جبکہ معذور اور خواجہ سرا کی 1،1 نشستیں ملیں گی۔ اس طرح جماعت اسلامی کے نمائندوں کی تعداد 127 تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔
بلدیہ عظمی کراچی کے ایوان میں تیسری بڑی اکثریت رکھنے والی تحریک انصاف کو 20 مخصوص نشستیں ملنے کا امکان ہے جس کے بعد ان کے اراکین کی تعدد 63 ہوجائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی تعداد 7 جیتی ہوئی نشستوں اور 2 خواتین کی مخصوص نشستیں ملنے کے بعد 9 ہو جائے گی۔ جے یو آئی کو 3 نشستوں کی بنیاد پر 1 مخصص نشست ملے گی۔ اس طرح کوئی بھی پارٹی تنہا حیثیت میں میئر نہیں لاسکتی۔
اگر عمران خان کی اپیل پر تحریک انصاف کے تمام 63 ووٹ جماعت اسلامی کی حمایت کر دیں تو ان کے 127 ووٹوں کو ملا کر کل 190 ووٹ بنتے ہیں جو میئر کراچی بننے کی سادہ اکثریت (179) کے لیے کافی ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اعلان کر چکے ہیں کہ کراچی کا مئیر جیالا ہوگا۔
میئر کراچی کے انتخاب میں 43 پی ٹی آئی یوسی چیئرمینز کی اکثریت جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دے گی، سعید غنی
وزیر محنت اور انسانی وسائل سندھ سعید غنی نے دعویٰ کیا ہے کہ 43 یونین کمیٹی (یو سی) کے چیئرمینوں کی اکثریت میئر کراچی کی نشست کے لیے جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی۔
پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر وقار مہدی، ڈپٹی انفارمیشن سیکریٹری و کنونئر پی پی پی ایسٹ آصف خان کے ہمراہ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید غنی نے سابق وزیراعظم عمران خان اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور حافظ نعیم کا ایک ہی مسئلہ ہے، دونوں مایوسی کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ جماعت اسلامی کے 86 ارکان ہیں پہلے وہ اپنے ارکان تو پورے کر لیں کہ وہ تمام حافظ نعیم کو ووٹ بھی دیں گے یا نہیں، جماعت کے دوست بتاتے ہیں جماعت اسلامی میں حافظ نعیم کے رویے پر لوگوں کو اعتراض ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر کامیاب چیئرمینز نے اپنی پارٹی کے اجلاس میں واضح کیا ہے کہ جماعت اسلامی کو سپورٹ نہیں کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ہمارے حمایتی ٹوٹل نمبر 173 ہیں، سعید غنی نے کہا کہ ہمارے حساب سے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان ملا کر 190 بنتے ہیں اور ہمارے 173 بنتے ہیں اور ہمارے صرف 9 ارکان کم بنتے ہیں۔
صوبائی وزیر نے کہا تھا کہ اگر تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کر بھی دیا ہے تو بھی ان کے 43 ارکان میں زیادہ تر جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے اور اکثریت کی رائے یہ ہے کہ ایک طرف ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر میئر کے انتخاب میں جماعت اسلامی کو اکثریت ملتی ہے تو وہ ضرور میئر بنے اور اگر نہیں ملتی تو وہ دوسرے کو تسلیم بھی کریں۔