گزشتہ چند دنوں میں رونما ہونے والے واقعات سےایک تاثر سامنے آیا ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں تناوٗ کی کیفیت میں کمی آئی ہے۔
عمومی طور پر سپریم کورٹ میں سنے جانے والے تمام مقدمات کا اثر ہمارے قومی معاملات پر پڑتا ہے لیکن خصوصی طور پر اس وقت 3 ایسے مقدمات سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہیں جن کی طرف پورا ملک دلچسپی سے دیکھ رہا ہے۔
ایک مقدمہ پنجاب میں انتخابات سے متعلق ہے جب کہ دوسرا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور تیسرا آڈیو لیکس کمیشن ہے۔ واضح رہے کہ دوسرے اور کیسز پر سپریم کورٹ نے حکم امتناع جاری کیا ہوا ہے۔
مذکورہ مقدمات میں سپریم کورٹ کا رویہ پہلے خاصا سخت دکھائی دیتا تھا تاہم اب اس میں بتدریج کمی آنی شروع ہو گئی ہے اور بظاہر ایک ایسا تاثر ابھر رہا ہے گویا سپریم کورٹ آف پاکستان کے سخت موٗقف کچھ نرم پڑا ہے۔
پنجاب الیکشن التوا مقدمے میں کیا ہوا؟
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے 4 اپریل کو حکمنامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ 14 مئی کو ہر صورت انتخابات کرائے جائیں اور انتظامیہ کو حکم دیا کہ ان کے انعقاد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطلوبہ مدد فراہم کی جائے۔ 14 مئی کو انتخابات تو نہیں ہوئے لیکن عدالتی حکم کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئی وجوہات کے ساتھ ایک نظر ثانی اپیل دائر کر دی۔
ابتدائی طور پر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اس مقدمے میں تھوڑا سخت رویہ اپنایا اور کہا کہ پاکستان کے آئین میں 90 روز کی مدت مقرر ہے اور ہمارا گزشتہ حکم نامہ نافذالعمل ہے جس کے مطابق 14 مئی کو ہر صورت انتخابات کرائے جائیں۔
اسی دوران ایک درخواست دائر کی گئی جس میں موٗقف اپنایا گیا کہ انتخابات ایک ہی وقت میں ہونے چاہییں جس پر پاکستان تحریک انصاف سمیت سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے عدالت کو مشاورت اور مذاکرات کی یقین دہانی کروائی لیکن پی ٹی آئی نے کہا کہ انتخابات 14 مئی ہی کو ہونے چاہییں۔ اس کے بعد پنجاب میں الیکشن کے التوا سے متعلق الیکشن کمیشن کی زیر سماعت اپیل پر سپریم کورٹ کا رویہ ایسا سخت نہیں اور انہوں نے نظر ثانی قوانین میں پارلیمنٹ کی جانب سے کی جانے والی ترمیم کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس اختیارات اور بینچوں کی تشکیل چیف جسٹس کی بجائے سپریم کورٹ کے 3 سینئر موسٹ ججز پر مشتمعل کمیٹی کے حوالے کرنے والے اس ایکٹ پر سپریم کورٹ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے پہلی سماعت پر ہی حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔ اس مقدمے کی گزشتہ روز سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مذکورہ ایکٹ اور پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ عدالتی فیصلوں پر نظرثانی ایکٹ کی کچھ شقیں باہم مماثل ہیں اور حکومت ان پر غور کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے دوبارہ غور کرنے کے فیصلے کو بھی چیف جسٹس نے خوش آئند قرار دیا اور سماعت ملتوی کر دی گئی۔
آڈیو لیکس کمیشن
اسی طرح سے آڈیو لیکس کمیشن پر حکم امتناع جاری کیے جانے کے بعد سے سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر کارروائی کو آگے نہیں بڑھایا اور کہا کہ ابھی اس معاملے میں درخواستوں کو نمبر نہیں لگے اور اگلے ہفتے کسی وقت سماعت کریں گے۔
شاہ خاور ایڈووکیٹ
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان شاہ خاور نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کچھ مقدمات میں اپنے موٗقف سے پیچھے ہٹی ہے اور اس کی بنیادی وجہ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات ہیں جو اتنے زیادہ ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے سپریم کورٹ کی مورل اتھارٹی کم ہو گئی ہے اور وہ اپنے فیصلوں کو منوا نہیں پا رہی۔
شاہ خاور نے کہا کہ پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ نے ایک موٗقف اختیار کیا لیکن پھر دفاعی اداروں کی بریفنگ کے بعد سپریم کورٹ اپنے موٗقف سے پیچھے ہٹ گئی۔
حسن رضا پاشا
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ اور مقننہ میں تناوٗ کم ضرور ہوا ہے ختم نہیں ہوا کیوں کہ ختم تو ہم تب کہیں اگر پارلیمان میں عدلیہ کے خلاف ہونے والی باتیں ختم ہو گئی ہوں یا عدالت نے جن معاملات پر نوٹس لے رکھے ہیں وہ مقدمات ختم ہو گئے ہوں۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ میرے خیال میں 9 مئی کو ہونے والے واقعات نے کی وجہ سے حکومت اور عدلیہ دونوں طرف رویوں میں فرق آیا ہے اور اب تو 12 اگست کو ویسے بھی اسمبلیوں کی مدت ختم ہو جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ادارے بھی سپریم کورٹ سے تعاون نہیں کر رہے لہٰذا ان حالات میں سپریم کورٹ اگر انتخابات کے انعقاد کے لیے دباوٗ ڈالتی بھی ہے تو اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور یہ سپریم کورٹ کی اتھارٹی کے لیے ایک اچھی چیز نہیں ہو گی۔
امان اللہ کنرانی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی طرف سے بھرپور مزاحمت کا سامنا ہے۔