وفاقی حکومت نے قانون سازی پر سپریم کورٹ سے مشاورت سے صاف انکار کردیا ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے کہا کہ معزز جج کہتے ہیں پارلیمنٹ قانون بنانے سے پہلے مشاورت کرے، پارلیمنٹ کیوں مشاورت کرے، کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے ماتحت ہے؟
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب عرفان قادر نے لاہورگورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ میں بعض لوگ خود کو ریاست سے اوپر سمجھتے ہیں، حالانکہ ریاست سب سے اوپر ہے اور پھر آئین ہے۔ کوئی بھی فرد واحد کسی بھی ادارے پر حاوی نہ ہو بلکہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔
معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ عدالتوں میں کیسز کے دوران عدلیہ سوال کرتی ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ قانون سازی سے پہلے مشاورت کیوں نہیں کرتی؟ ججز حکومت کو پوچھ ہی نہیں سکتے یہ تو سراسر آئین کے آرٹیکل 7 کی خلاف ورزی ہے۔
’ریاست اس وقت بڑے صبروتحمل سے کام لے رہی ہے، ریاست کو کمزور نہ سمجھا جائے۔‘
عرفان قادر نے کہا کہ عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ایسے مخصوص ہم خیال گروپ کے ساتھ نہیں ہیں جو عدلیہ کے فیصلے نہیں مانتے۔ کیسز اور وکلا بھی اپنی مرضی کے لگاتے ہیں، ان سے کہتا ہوں کہ عدلیہ کو اس طرف نہ لے کر جائیں کہ وہ کمزور ہوجائے۔
انھوں نے کہا کہ آئین سے متصادم قانون سازی عدالت میں چیلنج ہوتی ہے لیکن یہاں تو 184 تھری کا قانون بھی عدالت میں چیلنج کردیا گیا ہے، اگر عدلیہ چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ پوچھے کہ قانون کیسے بنانا ہے تو پارلیمنٹ بھی ججز سے پوچھے گی کہ فیصلوں کو چیلنج کرنا ہے یا نہیں کرنا۔
مزید پڑھیں
وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ ریاستی اداروں کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے، ریاست تو پارلیمان ہے عدلیہ نہیں ہے۔ عدلیہ پارلیمان کی توہین کر رہی ہے، اس کا مطلب ہے کہ آئین پاکستان کی توہین کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کون سا قانون کہتا ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن کی تاریخ صادر کر دے، الیکشن پاکستان میں اکٹھے ہی ہوں گے اگر اسمبلی دو تین سال پہلے تحلیل ہوجاتی تو سمجھ میں آتا ہے، قومی اسمبلی کی مدت اگست میں پوری ہوگی تو آرام سے الیکشن ہو جائیں گے۔