پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی منگل کو جیسے ہی اڈیالہ جیل سے رہا ہوئے تو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی کا اگلا لائحہ عمل بدھ کو عمران خان سے ملاقات کے بعد عوام کو بتاؤں گا۔ بدھ کو شاہ محمود قریشی 4 بجے کر 15 منٹ پر زمان پارک پہنچے اور 5 بجے کر 20 منٹ پر زمان پارک سے واپسی کی راہ لی لیکن میڈیا کے ساتھ بات نہ کی۔
پی ٹی آئی کے چند سینیئر رہنماؤں کی رائے ہے کہ شاہ محمود قریشی خاموشی سے اس لیے واپس چلے گئے کہ لگتا ہے جو پیغام شاہ محمود قریشی لے کر آئے تھے اس میں سے ان کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی جسکی وجہ سے شام کو آئی ایس پی آر کا بڑا سخت پیغام بھی 9 مئی کے حوالے سے آیا ہے۔ اس سے یہ ہی نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ پیغام بڑا سخت تھا جسے فی الفور عمران خان نے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
شاہ محمود قریشی متبادل کا پیغام لے کر آئے تھے؟
سینیئر صحافی احمد ولید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی عمران خان کے لیے خاموش رہنے کا پیغام لے کر آئے تھے کہ آپ یا خاموش ہوجائیں یا ملک سے باہر چلے جائیں۔ پارٹی کی سیاسی باگ ڈور اپنے کسی متبادل کو سونپ دیں اس طرح کا ہی پیغام لگتا ہے کہ عمران خان کو پہنچایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
ان کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کے آنے اور جانے کی اگر ویڈیوز دیکھیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ عمران خان کو جو پیغام پہنچایا گیا ہے وہ اس پر راضی نہیں ہیں جبکہ ایکسپریس ٹی وی کے سینیئر صحافی میاں اسلم مراد کا کہنا ہے کہ شاہ محمود نے عمران خان کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ عمران خان 9مئی کے واقعات پر کھل کر مذمت کریں اور یہ کہا جائے کہ جو 9مئی کو ہوا اس طرح کا سانحہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اس وقت سیاسی صورتحال کو جانچنا بہت مشکل ہے؟
دوسری جانب سینیئر سیاستدان عطا مانیکا کا کہنا ہے کہ اس وقت جو پاکستان میں سیاسی صورتحال ہے وہ خاصی پیچیدہ ہے۔ 1970 میں جب الیکشن ہوئے تو اس وقت بھی اسی طرح کی ملتی جلتی صورتحال تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں 7 دسمبر1970 کا دن ایسا ہی تاریخی اہمیت کا دن تھاجب آزادی کے 23 سال بعد ملک میں پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی اور ’ایک فرد ایک ووٹ‘ کے اصول پر عام انتخابات منعقد ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آئین ساز اور قانون ساز اسمبلی کے اس انتخاب کے 10 روز بعد 17 دسمبر کو صوبائی اسمبلیوں کےانتخابات ہوئے۔ اس وقت عوامی مسلم لیگ کا بڑا ریلا تھا مگر اس ریلے کا اندازہ کوئی نہ کر سکا۔ لوگوں نے خاموش ووٹ عوامی مسلم لیگ کو دیا۔ اس دفعہ بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عوام میں غم و غصہ بہت پایا جارہا ہے۔ آئندہ والی اسمبلی کے بارے میں سیاسی صورتحال کا اندازہ مقتدر حلقے بھی ٹھیک طریقے سے نہیں لگا پا رہے۔ ہمیں جمہوری رویے اپنانا ہونگے اور عوام جس کو ووٹ دے اس کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھانا چاہیے ایسے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے وگرنہ مزید نقصان ہوگا۔
شاہ محمود کب پریس کانفرنس کریں گے؟
شاہ محمود کے قریبی ساتھی نے ’وی نیوز‘ کو بتایا کہ شاہ محمود قریشی ہو سکتا ہے اتوار کو ملتا ن میں پریس کانفرنس کریں مگر ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے کیونکہ ان کی اہلیہ کراچی کے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شاہ محمود اپنی پریس بریفنگ میں عمران خان سے ملاقات کا احوال بھی بتائیں گے اور جیل میں جو وقت گزارا اس کے حوالے سے بھی عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ وائس چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی تھری ایم پی او کے تحت حراست میں رہنے کے بعد منگل 6 جون کو رہا ہوئے تھے اور انہوں نے بدھ کو عمران خان سے اہم ملاقات کی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے منگل کے روز اپنی رہائی کے بعد کہا تھا کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے مفصل بات کروں گا مگر وہ عمران خان سے ملنے کے بعد میڈیا سے بات کیے بغیر ہی نکل گئے۔