دریاؤں پر مختلف طرز کے بنے دلچسپ پُل ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ لکڑی کے تختوں سے بنے مُعلق پُل، سیمنٹ گارے سے تعمیر ہوئے پختہ پُل اور فولاد سے بنے بلند و بالا پُل۔
ایک دوسرے سے مختلف نظر آنے والے یہ پُل گزشتہ کئی برس سے گلگت، بلتستان، ہنزہ ، غذر، صوابی اور چترال میں خودکشی کے لیے اس کثرت سے استعمال ہو رہے ہیں کہ اب ان پُلوں کو دیکھ کر خوف آنے لگا ہے۔ ہر پُل کے ساتھ دسیوں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی خود کشی کی کہانیاں جڑی ہیں۔
نوجوانی زندگی کا سب سے خوبصورت حصہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی عمر میں اپنی مرضی سے اپنی جان لینا قطعی آسان عمل نہیں ہے چہ جائیکہ دورِ شباب میں یہ کام کیا جائے۔
کیا واقعی یہ نوجوان صرف حالات کے ستم سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور کہانی یا راز پوشیدہ ہے؟
یہ سارے نوجوان لڑکے لڑکیاں روزانہ ان پُلوں سے گزر کر اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کا رُخ کرتے ہوں گے۔اپنے اپنے روزگار کے لیے انہیں پُلوں سے گزر کر جانا ہر نوجوان کے لیے ایک معمول کی بات ہو گی۔
نو بیاہتا لڑکیاں جن کے شوہر شادی کے چند ہفتوں کی رفاقت کے بعد سلسلہِ روزگار کے لیے دوسرے شہر یا بیرون ملک سدھار جاتے ہیں وہ بھی انہیں دریاؤں پر بنے پلوں سے گزر کر اپنی تنہائی مٹانے کو میکے کا رخ کرتی ہوں گی۔
پُلوں سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ انہی لوگوں میں شامل وہ چند افراد ہیں جن کا ان پُلوں سے دوسروں کی طرح برسوں کا رشتہ ہے۔
غذر:
دریا پر ایستادہ پُل پر موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئے کام پر جانا اس کا روزانہ کا معمول تھا، اسی پُل پر پیدل چلتی نو بیاہتا لڑکی کو وہ نظر آیا تھا۔
کسے معلوم تھا کہ پُل پر آتے جاتے اسے کوئی ہمسفر مل جائے گا، جس سے وہ گھڑی دو گھڑی اپنی تنہائی بانٹ سکے گی؟
جب کہ دوسری جانب اسے بھی اس شادی شدہ لڑکی سے جانے انجانے میں انسیت سے ہوگئی تھی اور ہر دوسرے دن اس پُل پر ان کی مڈبھیڑ ہوجانا کوئی اتفاق نہ رہا تھا۔
ان سرسری ملاقاتوں نے دونوں کو نئی زندگی بخش دی تھی۔ لیکن یہ زندگی بڑی مختصر ثابت ہوئی۔ چند ہی دنوں میں لڑکے کو خبر ملی کہ اس لڑکی نے دریا میں کود کر جان دے دی ہے۔
لیکن لاش ملنے پر انکشاف ہوا کہ لڑکی کے جسم پر بہیمانہ تشدد کے نشانات تھے اور یہ خودکشی نہیں بلکہ اسے زبردستی دریا برد کیا گیا تھا۔
اس نوجوان کی زندگی اس حادثے کے بعد تہ و بالا ہوگئی، اور جلد ہی اس کی خودکشی کی خبر بھی خبروں کی زینت بن گئی۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسا کیا ہوا کہ جس پُل پر دونوں ملتے تھے وہیں سے چھلانگ لگا کر دونوں نے اپنی اپنی جان بپھرے دریا کے سپرد کردی؟
گلگت:
وہ بھی روز ایک پُل سے گزر کر کالج جاتی تھی۔ شوخ چنچل اس طالبہ پر کالج کا ہر لڑکا فریفتہ تھا تاہم وہ خود ایک ایسے لڑکے پر جان چھڑکتی تھی جو اس کا ہم مسلک نہیں تھا۔
بے شک ان کے فرقے جدا تھے پر ان کے دل یکساں انداز میں دھڑکتے اور وہ ایک دوسرے کو سمجھتے تھے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ جس پُل پر وہ دونوں منٹوں کا سفر اٹھکلیاں کرتے گھنٹوں میں طے کیا کرتے تھے وہی ان کی موت کا سبب بن جائے گا۔
ایک اسماعیلی لڑکی کی شادی کسی اثنائے عشری سے؟ ناممکن۔
یہ کہاں کی تُک ہے کہ ایک پڑھی لکھی لڑکی صرف اس وجہ سے ایک اَن پڑھ کے پَلو سے باندھ دی جائے کہ وہ اس کے فرقے اور برادری کا ہے؟
وہ سمجھتی تھی کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اتنا حق تو اسے حاصل ہو جائے گا کہ اپنی زندگی کا ساتھی اپنی پسند سے چن سکے گی۔
ہائے رے خام خیالی!
’ایک لڑکے نے دریا گلگت میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی‘ مقامی اخبار کی اس خبر پر طالبہ کی نظریں جمی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے کیونکہ ’عزت کا معاملہ‘بڑی عیارانہ خاموشی سے نمٹایا گیا تھا۔
دماغ میں طوفان برپا ہونے کے باوجود وہ اطمینان سے تیار ہو کر اپنی دوستوں کے ہمراہ کالج کے لیے روانہ ہوئی۔ پُل کے وسط پر پہنچ کر اپنی دوستوں کو حیران پریشان چھوڑا اور دریا کی لہروں میں گم ہوگئی۔
ہنزہ:
ابھی تو اس کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ آج کل رات دیر تک امتحان کی تیاری وجہ سے روز دیر سے آنکھ کھلتی تو بھاگم بھاگ دریا پر ڈولتے لکڑیوں کے بوسیدہ پُل پر سے اس پھرتی سے گزرتا کہ دوسرے بچوں کی روح فنا ہونے لگتی کہ اب کوئی پھٹا ٹوٹا اور وہ دریا میں گرا۔
اس پر پڑھائی کا دباؤ نہ صرف والدین بلکہ پورے اسکول کی جانب سے تھا کہ ہمیشہ ٹاپ جو کرتا آیا تھا۔ پھر اس بار تو امتحانات بھی میٹرک کے تھے اور وہ اپنی پوری توانائی علاقے بھر میں ٹاپ کرنے کے لیے صرف کر رہا تھا۔
لیکن یہ کیا ہوا صرف دو نمبر سے وہ ٹاپ آنے سے محروم رہ گیا تھا۔ رزلٹ ہاتھ میں لرز رہا تھا۔ اسے لگا اس کے گھر والے، سارے دوست، اساتذہ تمام علاقے والے ۔۔ نہیں نہیں پورا ملک بلکہ پوری دنیا اس کا مذاق اڑا رہی ہے۔
اور امی ۔۔۔ وہ تو میری اس ناکامی پر جیتے جی مر جائیں گی۔
اور وہی ہوا رزلٹ پر نظر پڑتے ہی اس کی ماں نے خود کو کمرے میں مقفل کر لیا۔ لوگوں کی ہتک آمیز نظروں سے بچنے کا اسے صرف ایک ہی حل سوجھا اور وہ پوری طاقت سے پل کی جانب بھاگا۔ آج وہ بوسیدہ پُل اس کا وزن نہیں سہار پایا اور جو نتیجہ نکلا اس کا نوحہ خود پُر شور دریا بھی پڑھ رہا تھا۔
چترال:
روز کی جھک جھک نے اس کے اوسان خطا کر دیے تھے۔ وہ 24 سال کا ہونے کو آیا تھا 2 برس قبل امتیازی نمبروں سے انجینئرنگ کے امتحان میں کامیاب ہوا تھا لیکن روزگار حاصل کرنے میں ابھی تک ناکام تھا۔
ان 2 برسوں میں اس شہر میں روزگار حاصل کرنے کے جو بھی ممکنہ کوششیں تھیں وہ سب اُس نے کر دیکھیں تھیں لیکن کامیابی ندارد!
اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ کس کو مورود الزام ٹھہرائے؟ خود کو، والدین کو، اس ریاست کو یا ریاست کے اس فرسودہ نظام کو جس نے نوجوانوں کے لیے کوئی نئی راہ تو دور بلکہ جو کچھ میسر تھا اسے بھی تہس نہس کر دیا تھا۔
گھر میں داخل ہوتے ہوئے شرمندگی اور خفت آڑے آتی۔ والدین کی آس بھری نگاہیں اس کے وجود کو کھوکھلا اور ذہنی دباؤ کو بڑھاوا دے رہی تھیں۔
ہوش ربا مہنگائی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی، چھوٹے بہن بھائیوں کی فیس ادائیگی باپ کی تنخواہ میں ممکن نہ رہی تو انہیں گھر بٹھا لیا گیا۔ ذہنی تناؤ میں اضافہ ہونے لگا۔
پُل پر سے تو وہ روز گزرتا تھا لیکن آج اس نے حتمی فیصلہ کر لیا تھا کہ اس پُل پر یہ اس کا آخری سفر ہوگا۔
سُنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
فانی بدایونی