ٹیلنٹ کسی کی میراث نہیں کا جملہ تو ہم سبھی نے سن رکھا ہے لیکن اس جملے کو زندہ دیکھنا ہو تو ایبٹ آباد کے چھوٹے سے گاؤں کی مکین فضا عباسی کی صورت دیکھا جا سکتا ہے۔
معصومیت اور زندگی سے بھرپور کمسن فضا حفیظ عباسی بول اور سن نہیں سکتیں لیکن یہ مجبوری نہ انہیں پاکستان کی سطح پر مختلف کھیلوں میں شریک ہو کر گولڈ میڈل لینے سے روک سکی، نہ ہی اسپیشل بچوں کے جرمنی میں منعقدہ کھیلوں کے لیے پاکستانی دستے میں شمولیت میں رکاوٹ بنیں۔
اتوار اور پیر کی درمیانی شب فضا عباسی اسلام آباد سے برلن کے لیے روانہ ہوئیں تو ان کے والد حفیظ عباسی اور والدہ کے لیے یہ ایک ایسا موقع تھا جسے وہ کسی بھی قیمت پر بھول نہیں سکتے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے فضا عباسی کے والد حفیظ عباسی نے بتایا کہ ان کی بیٹی خالصتا اپنے شوق کی وجہ سے کھیلوں کی جانب راغب ہوئی۔ یہ دیکھ کر ان کی والدہ اور میں نے بھی حوصلہ افزائی کی، نتیجتا انہوں نے پاکستان میں ہونے والے ریس، باسکٹ بال اور بیڈمنٹن میں گولڈ میڈل حاصل کیے۔ یہ مقابلے گزشتہ برس کراچی، لاہور اور پشاور میں منعقد ہوئے تھے۔
اسپیشل بچوں کے اسپورٹس مقابلوں میں شرکت کے لیے فضا عباسی جس دستے کے ہمراہ جرمنی روانہ ہوئی ہیں وہ 36 ارکان پر مشتمل ہے۔ اس میں اسپیشل کھلاڑیوں سمیت دیگر آفیشلز بھی موجود ہیں۔
او جی ڈی سی ایل کے مینیجنگ ڈائریکٹر/سی ای او احمد حیات نے اسپیشل اولمپکس ورلڈ گیمز 2023 میں شرکت کرنے والے پاکستانی اسپیشل ایتھلیٹس کو گزشتہ روز اسلام آباد ائیرپورٹ سے رخصت کیا ہے۔
حفیظ عباسی کے مطابق اسپیشل اولمپکس پاکستان کی جانب سے جرمنی جانے والے 36 رکنی دستے میں خیبرپختونخوا سے فضا اکلوتی بچی ہیں۔ حفیظ عباسی کا تعلق ایبٹ آباد کے علاقے کوٹ سے ہے وہ خود گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں جب کہ فضا کی والدہ گورنمنٹ پرائمری اسکول میں ٹیچر ہیں۔
ایبٹ آباد کے علاقے جھنگی میں واقع نجی اسکول میں زیر تعلیم فضا حفیظ عباسی کا شوق اور ان کی معذوری دیکھ کر والدین نے انہیں بچپن میں ہی ایبٹ آباد شہر منتقل کیا جہاں وہ مختلف اداروں میں زیر تعلیم رہیں۔
حفیظ عباسی کے مطابق فضا ڈیڑھ برس کی تھیں، جبھی سے وہ گھر پر میرے ساتھ مختلف کھیلوں میں شریک رہتیں۔ ان سے دو بڑی بہنیں اسکول جاتیں تو فضا کا دل بھی چاہتا کہ وہ اسکول جائیں، مگر چونکہ گاؤں میں ایسا ممکن نہیں تھا، اسی وجہ سے انہیں ایبٹ آباد منتقل کیا۔