آزاد کشمیر کے ضلع حویلی کی نیل فیری جھیل پر اتنا بھی کچرا نہیں پھیلا کہ اسے صاف نہ کیا جا سکے اور اس تھوڑی سی بد انتظامی کو لے کر حویلی کے ان نوجوانوں کی محنت پر گند اچھالا جائے جو اپنے حسنِ اخلاق سے ہزاروں لوگوں کو کھینچ کر، کندھوں پر اٹھا کر بلکہ پلکوں پر بٹھا کر نیل فری لے گئے۔
البتہ یہ فیسٹول چونکہ سرکار کی سرپرستی میں ہوا تو سرکار کا محاسبہ کرنا بنتا ہے کہ الپائین پاسچر میں ہونے والے فیسٹول کے دوران وہ تمام احتیاطیں کیوں نہیں برتی گئیں جو یہاں کے قدرتی ماحول کے کنوارپن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھیں۔
یہ بنیادی طور پر محکمہ سیاحت کی ذمہ داری تھی کہ اس مقام کی ماحولیاتی حرمت کے پیش نظر ایسی ایس او پیز جاری کی جائیں جن سے اس علاقے کے قدرتی ماحول کو داغدار ہونے سے بچایا جائے۔ ان ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے رضاکار مامور کیے جائیں اور سیاحوں کے ساتھ ساتھ انتظامی کمیٹی اس پر کاربند ہو کر ویسی ہی مثال قائم کرتے جیسی ہزاروں سیاحوں کو وہاں پہنچا کر قائم کی۔ لیکن محکمہ سیاحت کے ذمہ داران وہاں جا کر پروٹوکول انجوائے کر کے، دعوت اڑا کر واپس آ گئے اور اپنے ڈسپوزایبل برتن اور پلاسٹک کے ریپراور بوتلیں وغیرہ بھی وہیں چھوڑ آئے۔
پوری دنیا میں اصول ہے کہ سیاحتی علاقوں میں جانے والے سیاح اپنے ساتھ ایک خالی تھیلا ضرور لے کر جاتے ہیں اور اپنا کچرا، گند وغیرہ اِدھر اُدھر پھینکنے کے بجائے اس تھیلے میں بھر کر واپس لاتے ہیں اور محفوظ جگہوں پر تلف کرتے ہیں۔ لیکن یہ رویے ایک جانب انتظامی پالیسی سازی سے پروان چڑھتے ہیں تو دوسری جانب ان کی ترویج بچپن میں ہی گھروں اور سکول میں کی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں نظام البتہ الٹ ہے۔ بچوں کو محفوظ طریقے سے صفائی ستھرائی کے عمل میں شامل کرنے کے بجائے ان کے ذہن میں یہ سوچ گاڑی جاتی ہے کہ صفائی ستھرائی ایک مخصوص طبقے کا کام ہے اور وہ کوئی نچلے درجے کی مخلوق ہے۔ گھر سے، سکول سے اور معاشرے سے بچے کو یہ درس ملتا ہے کہ صفائی ستھرائی والے کام میں شامل ہونا افسرانہ شان کے خلاف اور توہین آمیز عمل ہے۔ نتیجتاً وہ صفائی کے عمل سے دور تو رہتا ہی ہے الٹا کسی بھی جگہ گند پھیلانے سے گریز نہیں کرتا اور جواز یہ ہوتا ہے کہ یہاں تو پہلے سے گند پھیلا تھا، میرے ایک ریپر پھینکنے سے کونسا فرق پڑنے والا ہے۔
لیکن نیل فیری پر تو پہلے کوئی گند نہیں تھا، سوائے چوپایوں کے گوبر کے، جو وہاں کی خود رو گھاس کے لیے نقصان دہ نہیں، مفید ہے۔ اب اس میں دو پایوں کی لِد بھی شامل ہو گئی۔
مہذب دنیا جب شہر سے ہٹ کر جنگل یا ویرانے میں جشن بپا کرتی ہے تو سب سے پہلے وہاں انسانی فضلے کو ٹھکانے لگانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سفری (پورٹ ایبل) لیٹرین پہنچائی جاتی ہیں۔ پانی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ یا کم از کم ہینڈ سینٹائزر مہیا کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اسلام آباد میں دھرنا پڑ جائے تو گرین بیلٹ لیٹرینوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، نیل فری جیسے دور دراز علاقوں تک پورٹ ایبل لیٹرین کیسے پہنچے۔
نصف ایمان صرف جسم کی صفائی نہیں بلکہ اپنے ماحول کو صاف رکھنا بھی اس کا ایک چوتھائی ہے۔ البتہ یہ ایک بتدریج عمل ہے جس کو آئیڈیل شکل اختیار کرنے میں ابھی دہائیوں کا وقت درکار ہے۔ ابتداء سرکار سے ہی ہونی ہے۔ محکمہ سیاحت کے افسروں اور اہلکاروں کی تربیت کے ساتھ ساتھ سرکاری عمال کے سروں سے افسرانہ خناس نکالنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ثانوی ذمہ داری سیاحوں پر عائد ہوتی ہے جو سرکار سے بھی بڑی ہے۔
نیل فیری فیسٹول جیسے مواقع تربیت سازی اور سیکھنے سیکھانے کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ حویلی اور قریبی علاقوں سے سکول اور کالجز اپنے طلباء و طالبات کو نیل فری لے جاتے اور انہیں رضاکارانہ طور پر مامور کر دیتے کہ جہاں بھی کسی کو کچرا پھیلاتا دیکھیں، نہایت شائستگی کے ساتھ انہیں پلاسٹک کا ایک تھیلا پکڑا دیں کہ اپنا کچرا اس میں ڈالیں اور اگر ساتھ واپس نہیں بھی لے جا سکتے تو کسی ایک جگہ جمع کر دیں تاکہ منتظمین کو اٹھا کر تلف کرنے میں آسانی ہو۔ مگر ہمارے ہاں تفریح اولین ترجیح ہے اور صفائی ستھرائی یا ماحول کا خیال رکھنا آخری، اور وہ بھی کسی دوسرے کی ذمہ داری ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ چودھری لطیف اکبر، فیصل ممتاز راٹھور اور مدحت شہزاد جب نیل فری سے نیچے اترتے تو ان کے ہاتھ میں پلاسٹک کا ایک تھیلا ہوتا اور اس میں پلاسٹک کی بوتلیں، اور ڈسپوزایبل برتن بھرے ہوتے۔ مجال ہے جو چودھری صاحب، راٹھور صاحب کی حاکمانہ اور مدحت شہزاد صاحبہ کی افسرانہ شان میں کمی آتی بلکہ یقین مانیں ان کے لیے احترام کئی گنا بڑھ جاتا۔
جب یہ سطور لکھ رہا تھا تو کچھ ایسی تصاویر نظر سے گزریں ہیں جن میں مقامی رضا کاروں نے جھیل کہ صفائی کے بعد کچرا جلا دیا- ان نوجوان کو زوردار سیلوٹ، لیکن اگلی مرتبہ یہ مرحلہ درپیش آئے تو اس کچرے کو وہاں میدان میں جلانے کے بجائے کسی نشیبی علاقے کی غار میں جلایا یا تلف کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔
نیل فیری پر سیاحت کے فروغ کے لیے کوشاں نوجوانوں کے نام ایک پیغام کہ کیمپنگ، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور گھوڑوں کو اس جھیل سے جتنا دور رکھیں گے، اس کا حسن اتنا تر و تازہ اور دیر پا رہے گا۔ یاد رکھیں اس جگہ کا حسن سبزے سے ہے۔ یہاں سبزہ اگنے کے لیے دہائیوں کا وقت چاہیے مگر برباد کرنے کو گاڑی، موٹر سائیکل کا ایک پھیرا یا ایک خیمے کی تنصیب کافی ہے۔