ہمارے ملک میں جنسی زیادتی یا عورت کو راہ چلتے چھیڑ دینا اتنا معمول بن چکا ہے کہ آپ کو راستے میں اچانک کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو جائے تو لوگوں کے دماغ میں سب سے پہلے یہی بات آتی ہے۔ اس بات کا اندازہ کل رات آفس سے واپسی پر میرے ساتھ ہونے والے ایک واقعے سے لگایا جاسکتا ہے جب ایک راہ چلتا شخص رکا اور وہ اپنے ساتھ کھڑے شخص کو یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے لگا کہ ’اس لڑکی کی عزت پر شاید کسی نے ہاتھ ڈالا ہے‘ اور یہ وہ جملہ تھا جس نے مجھے مزید پریشان کر دیا۔
کل آفس سے واپسی پر گھر جاتے ہوئے اسلام آباد کے جی 13 میٹرو اسٹییشن سے میں جونہی باہر نکلی اور تقریباً 2 منٹ کا فاصلہ ہی طے کیا تو میں نے اپنے بھائی کو میسج کرنے کے لیے موبائل نکالا اور اور میسج ٹائپ کرنا شروع کیا لیکن اسی وقت یک دم سے ایک نوجوان لڑکا میرے عقب سے نمودار ہوا اور میری طرف جھپٹا۔ وہ موبائل چھین کر بھاگنے لگا تھا کہ اس کی آستین میرے ہاتھ میں آگئی جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ سے موبائل گر گیا۔ میں ابھی موبائل اٹھانے ہی لگی تھی کہ اس نے مجھے دھکیلا اور موبائل اٹھا کر نسٹ یونیورسٹی اور میٹرو اسٹیشن کے درمیان سنسان مقام کی جانب بھاگ کر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
اس وقت رات کے تقریباً 8 بج رہے تھے اور وہاں کافی اندھیرا بھی تھا مگر اس کے باوجود دور سے آتے ہوئے ایک فرشتے نما شخص نے دیکھ لیا تھا کہ میرے ساتھ کچھ ہوا ہے۔ وہ موٹر سائیکل سوار میرے پاس پہنچا تو اس کے پوچھنے پر میں نے اسے سارا ماجرہ بتادیا۔ اس موٹر سائیکل سوار شخص کے پاس کچھ سامان تھا اس نے موٹر سائیکل سائیڈ پر کھڑی کی اور مجھ سے کہا کہ آپ یہ سامان پکڑ کر رکھیں میں دیکھ کر آتا ہوں پھر وہ شخص اس پہاڑی مقام کی جانب گیا مگر اندھیرا ہونے کے باعث اسے وہ نوجوان نظر نہیں آیا۔ موٹر سائیکل سوار شخص نے مجھے قریبی تھانے میں چلنے کو کہا مگر میں اس وقت اتنی گھبرائی اور ڈری ہوئی تھی کہ میں اس شخص پر اعتبار نہیں کر سکی اور میں نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔
وہ موٹر سائیکل سوار جیسے ہی آگے بڑھا اسے پولیس کی گاڑی کھڑی نظر آئی اور اس نے فوری طور پر وہاں موجود اہلکاروں کو بتایا جن میں سے ایک وردی جب کہ دوسرا سویلین کپڑوں میں تھا۔ وہ دونوں پولیس اہلکار 2 مختلف راستوں پر دوڑ پڑے تاکہ موبائل چھیننے والا ایک نہیں تو دوسرے راستے پر مل جائے اور ہوا بھی یہی۔ وہ پولیس اہلکار جو سادہ کپٹروں میں ملبوس تھا تھوڑی دیر بعد ہی اس نوجوان کو پکڑ کر ہماری طرف لے آیا۔
پولیس اہلکار پہلے ہی اس نوجوان سے میرا فون برآمد کرچکا تھا۔ پولیس کو اس نوجوان کو پکڑنے اور فون برآمد کرنے میں زیادہ سے زیادہ 10 منٹ لگے تھے جس پر مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی کہ پولیس فوری کارروائی کے ذریعے میرا موبائل فون برآمد کرنے میں کامیاب رہی۔ میں نے لوگوں کو زیادہ تر یہی کہتے سنا تھا کہ پولیس اہلکار معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور نہ ہی تعاون کرتے ہیں مگر میرے کیس میں معاملہ اس سے بالکل مختلف نکلا۔
پولیس اہلکار اس نوجوان کو پکڑنے کے بعد جب میرے پاس لے کر آئے تو میرے سامنے اس کی تھوڑی پٹائی بھی کی اور پھر اسے قریبی تھانے لے گئے۔ اس نوجوان کے مطابق اس کے ساتھ ایک اور لڑکا بھی مگر اسے جیسے ہی پولیس پیچھے آنے کا احساس ہوا وہ میٹرو بس میں سوار ہوکر فرار ہوگیا۔
میں اس وقت اسی جگہ کھڑی تھی جہاں میرا فون چوری ہوا تھا اور وہاں میرے عللاوہ پولیس اہلکار اور کچھ راہگیر بھی جمع تھے جو ایک دوسرے سے معاملے کے حوالے سے استفسار کر رہے تھے۔
ان میں سے ایک شخص کی جانب سے سننے کو ملا ’موبائل چھین لیا ہے؟ میں تو سمجھا تھا شاید اس کی عزت پر کسی نے ہاتھ ڈالا ہے‘۔ یہ وہ الفاظ تھے جنہیں سن کر میں ٹھٹک کر رہ گئی۔ مطلب اس ملک میں عورت کے ساتھ جنسی زیادتی ہو یا پھراس کی عزت کو پامال کیا جائے تو ہی اس کے خلاف بولا جائے اور تب ہی اس عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو سمجھا جائے۔ خیر اب تو حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ہر شہر کی گلیوں میں جسنی زیادتی کے واقعات کا ہونا ایک بہت عام سی بات سمجھا جاتا ہے اور افسوس ہے مجھے اس ملک میں رہنے والے کچھ لوگوں کی ذہنیت پر۔
پہلے کچھ منٹ کے لیے مجھے بلکل سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔ اس کے موبائل فون جھپٹنے کے طریقے سے میں اتنا گھبرا گئی تھی کہ میری آنکھوں سے آنسو نکلنے شروع ہوگئے تھے اور اس کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ موبائل تو میرا زیادہ قیمتی نہیں ہے مگر میری محنت بہت قیمتی ہے اور میں نے اللہ سے بھی یہی دعا کی تھی کہ بیشک موبائل نہ ملے مگر اس کا اثر آفیشل کام پر نہ پڑے کیوں کہ اس موبائل میں میرا آفیشل ڈیٹا موجود تھا اور وہ تمام رابطے جو میری نوکری کے لیے بہت اہم ہیں جنہیں بنانے میں مجھے تقریبا 4 مہینے لگے تھے اور وہ 4 مہینے میری پروفیشنل لائف کے بہت مشکل بھی تھے۔
اسلام آباد میں آئے روز موبائل چھیننے کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ مگرچند ہفتے قبل جب میں موبائل اسنیچنگ پر اسٹوری کر رہی تھی اور میں نے آئی جی پولیس سے بڑھتی ہوئی وارداتوں کے حوالے سے سوال کیا تھا تو انہوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کیسے یہ بات کہہ سکتی ہیں؟ پہلے ڈیٹا اکٹھا کر کے لائیں پھر مجھ سے پوچھیے گا۔ جب کہ ان دنوں بھی میرے 3 سے 4 قریبی جاننے والوں کے ساتھ موبائل اسنیچنگ کی وارداتیں ہوئی تھیں۔ مگر آج پولیس نے اس بات کو ماننے سے صاف انکار کیا اور کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ میرے جاننے والے لوگوں سے مجھے معلوم ہوا کہ ان کے موبائلز کی لوکیشن چیک کرنے پر انہیں افغانستان کی لوکیشن معلوم ہوئی ہے اور جب میں نے افغان گروہوں کے حوالے سے سوال کیا تو بھی پولیس نے صاف انکار کر دیا۔ جب کے کل رات موبائل چھننے والا نوجوان بھی افغان ہی تھا۔
ملک بھر میں ایک شکایت یہ بھی سننے کو ملتی ہے کہ پولیس اکثر لسانی بنیادوں پر ملزمان سے رعایت برتتی ہے جو کہ ایک خطرناک بات ہے اور جرائم میں اضافے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ ایسی باتوں سے کم از کم پولیس کو اجتناب ہی برتنا چاہیے۔
جی 13 میٹرو اسٹیشن کے گرد سیکٹرز اسلام آباد کا وسط کہلاتے ہیں مگر ایچ 13 جہاں نسٹ یونیورسٹی کی جانب میٹرو کے راستے پر کوئی اسٹریٹ لائٹ نہیں ہے۔ مغرب کے بعد وہاں اس قدر اندھیرا ہوتا ہے کہ لوگوں خصوصاً اکیلی خواتین کو خاصی مشکل پیش آتی ہے۔ میرا سی ڈی اے سے سوال یہ ہے کہ جب وہاں میٹرو کی سہولت موجود ہے اور رہائشیوں سمیت یونیورسٹی کی طالبات کا بھی وہاں سے گزر روز کا معمول ہے تو وہاں اسٹریٹ لائٹس فعال کیوں نہیں ہیں۔ کیا سی ڈی اے وہاں کسی جنسی زیادتی کا انتظار کر رہی ہے جس کے بعد وہاں فوری طور پر لائٹس بحال کر دی جائیں گی؟