یونان کے ساحل کے قریب کئی دنوں تک کشتی حادثے میں ڈوبنے والے افراد کے لیے ریسکیو آپریشن بالآخر بند کر دیا گیا(اب لاشوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا جا چکا ہے)۔ لیبیا سے بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرنے والے بہت سے تارکین وطن ہر سال سمندر ہی میں ڈوب کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ سال 2023 کے پہلے 3 مہینوں میں یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں میں سے 4 سو سے زائد افراد اسی بحیرہ روم میں حادثات کی نذر ہو ئے۔ ویسے ان اعداد و شمار پر بھی کئی عالمی اداروں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اصل ہلاکتوں سے نہایت کم شمار کیا ہے۔ اقوام متحدہ اور کئی دیگر اداروں کی جاری کردہ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر برس افریقہ کے ساحلوں سے کشتیوں پر سوار ہو کر ہزاروں افراد یورپ کے سہانے خواب لیے بحیرہ روم کی گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔
بحیرہ روم کے ایک طرف یورپ ہے تو دوسری طرف افریقہ، مغرب میں یہ جبرالٹر کے ذریعے بحر اوقیانوس سے منسلک ہے تو مشرق میں بلیک سی اور جنوب میں ریڈ سی واقع ہے۔ افریقی ملک سے کشتیوں کے سہارے اٹلی پہنچنے کے خواب میں خراب موسم،کشتیوں اور جہازوں کی ناقص حالت اور سفر کے غیر موزوں حالات آڑے آتے ہیں۔اس غیرقانونی سفر میں جہاں تارکین وطن کو یورپی ممالک کی سمندری سرحدوں میں گھومتے پھرتے محافظوں سے بچنا ہوتا ہے وہیں سمندر پار کرانے والے ایجنٹوں کی من مانیوں اورغیر انسانی رویوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔ ان غیر متوقع حالات میں اگر کوئی کشتی، ٹرالر یا بحری جہاز ڈوب جائے تو ان افراد کا بچنا تقریباً ناممکن ہو جاتاہے۔
اس سے پہلے کہ ہم ریسکیو آپریشن کی مشکلات پر بات کریں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سمندر میں کیا جانے والا آپریشن 2 مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلےحادثے کی جگہ تلاش کی جاتی ہے اور پھر دوسرے مرحلے میں متاثرین کو ریسکیو کیا جاتا ہے۔ اگر ایک 2 روز میں ڈوبنے والوں کا کوئی سراغ نہ ملے تو پھر سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن بند کر کے لاشوں کے اوپر آنے کا انتظار کیا جاتا ہے جس کا سارا دار و مدار حادثے کی نوعیت پر ہے۔ چند روز بعد جب انسانی لاش میں ڈی کمپوزیشن کا عمل شروع ہوتا ہے تو گیسز کے بننے کی وجہ سے لاش دوبارہ پانی کی سطح کے اوپر آجاتی ہے۔ جن کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کیا جا سکتا ہے۔
ذیل میں ہم نے کچھ ماہرین سے بات کرکے اُن وجوہات کو ترتیب دیا ہے جو سمندری حادثات کے بعد سرچ اور ریسکیو آپریشن کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں
سمندر کو ریسکیو آپریشن پسند نہیں
خشکی اور سمندر میں کیے جانے والے ریسکیو آپریشنز میں بہت فرق ہوتا ہے۔خشکی پر آندھی، طوفان یا سیلاب آنے کی صورت میں ریسکیو عملہ تبھی جائے حادثہ پر پہنچ پاتا ہے جب اس کی شدت میں کچھ کمی آئے۔ 2005 کے زلزلے میں ریسکیو آپریشن کے دوران زیادہ مشکلات وہاں آئیں جہاں جانے کا راستہ تک تباہ ہو گیا تھا۔ یہ تو زمین کے اوپر کی صورتحال ہے، اس کی نسبت سمندر جہاں ہر لمحے صورتحال تیزی سے بدل رہی ہوتی ہے وہاں ریسکیو ٹیموں کا کسی ایک جگہ پر رُکنا اور پھر زندہ یا مردہ انسانی جسموں کو تلاش کرنا ممکنات سے خاصا دور نظر آتا ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے صاف موسم ، سمندر میں تیزی سے اتار چڑھاؤ نہ ہونا اور وسائل کی سپلائی لائن کا برقرار رہنا شامل ہیں۔
حادثہ رات کی تاریکی میں ہو تو آپریشن ناممکن سا ہوتا ہے
پاکستان بحریہ سے منسلک رہنے والےخواجہ عمران کے مطابق اگر تو حادثہ دن کی روشنی میں پیش آئے تب تو ریسکیو آپریشن شروع کیا جا سکتا ہے لیکن رات ہونے کی صورت میں یہ بذات خود ایک رسک بن جاتا ہے۔ اسی لیے عموماً رات کے وقت اگر کوئی آپریشن جاری بھی ہو تو اسے روک دیا جاتا ہے۔ رات کے وقت کسی حادثے کی صورت میں فوریِ ریسکیو آپریشن شروع کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور صبح کا انتظار کسی بھی زندگی کی اُمید کو باقی نہیں رکھتا۔
ریسکیو کشتیاں اورحفاظتی جیکٹس نصیب والوں کو ملتی ہیں
مال بردار بحری جہاز کے کپتان زاہد نثار کے مطابق ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ بحری جہاز پر موجود شخص نے لائف جیکٹ پہن رکھی ہو۔سمندرمیں اگر کسی نے لائف جیکٹ نہیں پہنی تو تیراکی نہ آنے کے سبب جلد ہی اس کے پھیپھڑوں میں پانی سے بھر جاتے ہیں اور وہ شخص ڈوب جاتا ہے۔ بحری جہاز یا کشتی ڈوبنے کی صورت میں لائف بوٹس یا دیگر آلات تبھی کام آ سکتے ہیں جب آپ کے پاس ان تک پہنچنے کا وقت ہو۔ریسکیو کشتی بھی اس مسافر تک تبھی پہنچے گی جب اسے گرنے والے کی جگہ معلوم ہوگی۔ غیر قانونی طریقے سے سفر کرنے والے تو بمشکل کسی کشتی، ٹرالر یا جہاز پر بیٹھنے کی جگہ لیتے ہیں۔ ان کشتیوں پر حفاظتی آلات کا تصور کرنا بھی حماقت ہے۔
کچھ سمجھ نہیں آتی حادثہ کہاں پیش آیا؟
جس جگہ کوئی کشتی ،ٹرالریا جہاز الٹ جائے تو سمندر میں چلنے والی تیز ہوائیں کچھ ہی دیر میں ڈوبنے والے افراد کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں۔ دوسرا ہر فرد کے ساتھ کوئی مخصوص ٹریکر بھی نہیں لگا ہوا ہوتا جس سے اس کی تازہ ترین لوکیشن کا تعین کیا جا سکے۔ جب آپ کو پانی میں ڈوبنے والے کی جگہ کے بارے میں ہی علم نہ ہوتو آپ تلاش کہاں کریں گے۔
سمندر لاشیں کھا لیتا ہے؟
سمندر میں جس طرف بھی نظر دوڑائی جائے تاحد نگاہ پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے، ایسے میں اگر کوئی فرد پانی میں گرے تو اس کی تلاش کے لیے اس کا پانی کی سطح پر نظر آنا ضروی ہے۔ زاہد نثار کے بقول اگر کوئی شخص تیرنے کی کوشش کر بھی رہا ہے تو اس کا پانی سے اوپر محض سر ہی دکھائی دے گا۔ ہیلی کاپٹر یا دیگر جدید آلات کا سہارا لیتے ہوئے بھی اگر آپ کو پانی میں موجود شخص دکھائی ہی نہیں دے گا تو اسے ریسکیو کیسے کیا جا سکتا ہے؟
لمحہ ضائع تو جان ضائع۔۔
سمندر میں کیے جانے والے ریسکیو آپریشنز میں سب سے قیمتی چیز آپ کا وقت ہوتا ہے۔ ریسکیو یا سرچ ٹیم جتنے جلدی حادثے کے قریب ترین مقام پر پہنچے گی اتنی زیادہ انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ خواجہ عمران کے بقول جیسے ہی ایمرجنسی سگنل ملے تو قریب میں موجود جہاز اور ریسکیو ٹیموں کو حرکت میں آنا ہوتا ہے۔ تاخیر یا کوئی معمولی سی بھول چوک بھی حادثے کا شکار ہونے والی جانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیتی ہے۔
الٹ جانے والی کشتی کے نیچے سے کون نکلے؟
سمندر کے بیچوں بیچ یا ساحلی پٹی کے قریب کسی چٹان سے ٹکرا کر حادثے کا شکار ہونے والی کشتی یا جہاز اگر الٹ جائے تو اس سے انتہائی ماہر تیراک ہی نکل سکتا ہے۔ خواجہ عمران کے بقول ایک تو آپ پانی میں ڈوب رہے ہوتے ہیں اور پھر آپ کے اوپر کشتی کا بھی وزن ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک عام آدمی جسے تیراکی بھی نہ آتی ہو، اس کے لیے موت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔
لوگ پہلے ہی مرچکے ہوتے ہیں
غیر قانونی ٹرالرز اور کشتیوں میں سفر کرنے والوں کو کسی بھی قسم کا زادِراہ میسر نہیں ہوتا۔ یونان کشتی حادثے میں بچ جانے والوں میں سے ایک شخص نے اپنے لواحقین کوبتایا کہ 6 دن سے وہ لوگ ٹرالر پر بھوک و پیاس سے نڈھال تھے۔ ایسے میں ٹرالر اُلٹ جائے تو وہی شخص جان بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار سکتا ہے جس کے حواس بحال ہوں۔ اس ٹرالر میں زیادہ تر لوگ پہلے ہی نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے وہ اپنی جان کیا بچاتے۔
ٹائی ٹینک حادثے میں زیادہ لوگ بچ سکتے تھے؟
تاریخ کا سب سے مشہور بحری حادثہ 1912 میں بحر اوقیانوس میں پیش آیا۔ ڈوبنے والے جہاز پر 2 ہزار سے زائدمسافر سوار تھے جن میں سے 7 سو کے لگ بھگ ہی اپنی جانیں بچا پائے۔ اپنے وقت کے سب سے بڑے مسافر جہاز کے حوالے سے چند چیزیں مشہور ہیں۔مثلاً ایک تو یہ کہ اس پر موجود 20 لائف بوٹس میں استعداد سے کم افراد ہی سوار ہوئے، جب کہ اس کے علاوہ بھی 2،3 سو افراد کو بچایا جا سکتا تھا۔ دوسرا، ٹائی ٹینک کے قریب ایک اور جہاز بھی موجود تھا لیکن اس نے اپناوائرلیس ریڈیو بند کر دیا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ ٹائی ٹینک کی جانب سے بھیجا گیا ایمرجنسی کا پیغام نہیں سن سکا ورنہ مزید جانیں بھی بچائی جا سکتی تھیں۔
خیر ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کے بعد ہر مسافر جہاز کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا تھا کہ وہ تمام مسافروں کے لیے لائف بوٹس کا انتظام رکھے گا اور ان کے وائرلیس ریڈیو بھی 24 گھنٹے چلتے رہیں گے تاکہ قریب میں کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں وہ ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔
ان تمام احتیاطی تدابیر سے قانونی طور طریقے اختیار کر کے سفر کرنے والوں کے حادثات میں تو یقیناً کمی آئی ہے لیکن چھپ چھپا کر سفر کرنے والے ہر سال اب بھی ہزاروں کی تعداد میں ڈوب جاتے ہیں۔