قومی سیاست میں بڑے پیمانے پر تبدیلوں کا آغاز بلوچستان سے ہوتا ہے، ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں وفاقی حکومت کو توڑنے کے لیے بلوچستان کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں لائی گئیں۔ آج کل بھی بلوچستان میں سیاسی کھچڑی دھیمی آنچ پر پک رہی ہے۔
گزشتہ برس موسم سرما کے دوران بلوچستان کا سیاسی درجہ حرارت اس وقت بڑھنے لگا جب چند بڑی سیاسی شخصیات نے جمعیت علماء اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی کا رخ کرنا شروع کیا۔ سابق وزیر اعلی بلوچستان اور چیف آف ساراوان نواب اسلم رئیسانی نے اپنے اہم ساتھیوں کے ہمراہ جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کی۔
نواب اسلم رئیسانی کے اس سیاسی فیصلہ کے بعد بڑے پیمانے پر سیاسی رہنما قطار لگا کر پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ بنے، ان اہم قبائلی و سیاسی شخصیات میں سابق وزیراعلی بلوچستان اور چیف آف جھالاوان نواب ثناءاللہ خان زہری، میر نعمت زہری، عارف جان، محمد حسنی، ظہور بلیدی، سلیم کھوسہ، جمال رئیسانی، سینیٹر سید ہاشمی کے صاحب زادے حسنین ہاشمی، جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ سمیت کئی اہم سیاسی و قبائلی شخصیات نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔
اس بھاگ دوڑ میں مسلم لیگ ن بھی کسی سے پیچھے نہ رہی۔ گزشتہ برس بلوچستان میں اپنی سیاست کو مضبوط کرنے کے لیے نئے صوبائی صدر کا انتخاب کیا گیا، جس میں صوبے کے سینئیر سیاسی رہنما جعفر خان مندوخیل صوبائی صدر نامزد ہوئے۔ انہیں صوبے میں پاکستان مسلم لیگ ن کو مستحکم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے صوبائی لیگی صدر جعفر مندوخیل نے کہا کہ لندن میں نواز شریف سے ملاقات میں انہوں نے واضح طور پر صوبے میں مسلم لیگ کو مستحکم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اہم سیاسی شخصیات کو پارٹی کا حصہ بنانے کی حکمت عملی پر عملدرآمد کا کہا ہے، تاکہ مستقبل میں بلوچستان سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کی جاسکیں۔
جعفر مندوخیل کے مطابق 8 سے 10 اہم سیاسی شخصیات سے فی الوقت رابطے میں ہیں اور وقت آنے پر انہیں باقاعدہ طور پر پارٹی میں شمولیت بھی کروائی جائے گی۔ ’سیاسی وجوہات کی بناء پر اب تک ان شخصیات کے نام پس پردہ رکھے گئے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں جعفر مندوخیل نے بتایا کہ سابق وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان سے بھی مسلم لیگ میں شمولیت سے متعلق چند نکات زیر بحث ہیں، تاہم ان کی شمولیت سے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مسلم لیگ ن کی صوبائی قیادت آئندہ انتخابات میں پہلے یا دوسرے نمبر پر زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ تو کر رہی ہے لیکن سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں آئندہ بھی مخلوط حکومت کی تشکیل کا قوی امکان ہے، جب کہ پیپلز پارٹی صوبے میں سب بڑی جماعت کے طور ابھرنے کے لیے فیورٹ پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔