سپریم کورٹ آف پاکستان نے عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں جمعرات 22 جون کو سماعت کے لیے مقرر کر دی ہیں اور 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بینچ میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج و نامزد چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس سردارطارق مسعود، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ جمعرات کو 11 بجکر 45 منٹ پر درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن اور دیگر نے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ملک گیر احتجاج کیا تھا اور اس دوران فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
سانحہ 9 مئی کی پاداش میں سول اور عسکری قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف کیسز فوجی عدالتوں اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلائے جائیں گے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
اس حوالے سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ جن ملزمان نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے ہیں ان کے کیسز فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے جبکہ دیگر کے کیسز انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔
فوجی عدالتوں میں کیس چلانے پر حکومت کو تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ اگر کیسز فوجی عدالتوں میں چلنے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ جمہوریت ختم ہو چکی ہے۔
آرمی ایکٹ ہے کیا اور مقدمات کیسے چلائے جاتے ہیں؟
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی اہلکاروں کے خلاف ٹرائل عمل میں لایا جاتا ہے تاہم اس ایکٹ میں کچھ شقیں ایسی بھی موجود ہیں جن کے تحت سویلینز کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
آرمی ایکٹ کے حوالے سے دستیاب معلومات کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت کام کرنے والی فوجی عدالتیں جی ایچ کیو ایجیوٹنٹ جنرل (جیگ) برانچ کے زیرنگرانی کام کرتی ہیں اور اس عدالت کی سربراہی ایک حاضر سروس فوجی افسر کرتے ہیں۔
سنہ 2015 میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کرنے کے منظوری دی گئی تھی جن کا بنیادی مقصد دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث افراد کے خلاف تیزی سے ٹرائل کرنا اور سزائیں دلوانا تھا۔
کیا ماضی میں سویلینز کے خلاف فوجی عدالتیں فیصلہ دے چکی ہیں؟
اس حوالے سے کچھ روز قبل وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل (ر) انعام الرحیم نے بتایا تھا کہ “ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں جنرل باجوہ نے بطور آرمی چیف 25 ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزاؤں کی توثیق کی تھی”۔
ان کے مطابق یہ وہ سویلینز تھے جن پر دہشت گردی نہیں بلکہ جاسوسی، قومی راز دشمن تک پہنچانے جیسے الزامات تھے، ان ملزمان کو کب اور کہاں سے گرفتار کیا گیا؟ اس حوالے سے کوئی معلومات سامنے نہیں لائی گئی تھیں۔
کرنل انعام الرحیم کے مطابق ان افراد میں 3 ملزمان کو سزائے موت اور دیگر کو مختلف سزائیں ہوئی تھیں جن کے خلاف ہائی کورٹس میں اب بھی اپیلیں موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر مہدی عسکری کے بیٹے حسن عسکری کو فوجی عدالت نے 5 برس قید با مشقت کی سزا سنائی تھی۔
حسن عسکری پر الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 2020 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی مدت ملازمت میں توسیع ملنے اور فوج کی پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کو کہا تھا۔
ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے یہ خط دیگر جرنیلوں کو بھی ارسال کیے تھے جس کا مقصد فوج میں بغاوت کرانا تھا۔
کرنل انعام الرحیم کے مطابق اگر عمران خان کا اس کے تحت ٹرائل کیا جاتا ہے تو انہیں 7 سے 10 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے جبکہ انہیں اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہوگا۔