ایشیا کے کوہ ہندوکش ہمالیہ میں گلیشیئرز بے مثال رفتار سے پگھل رہے ہیں اور صدی کے آخر تک اپنے حجم کا 75 فیصد تک کھو سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان پہاڑوں سے بہنے والے دریاؤں کے ساتھ جڑی لگ بھگ 2 ارب کے قریب آبادی کو ہمہ وقت خطرناک سیلابی صورتحال اور پانی کی قلت کا سامنا رہے گا۔
کھٹمنڈو میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (ICIMOD) کی رپورٹ میں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر گرین ہاؤس گیسوں کو تیزی سے کم نہ کیا گیا تو آنے والے برسوں میں برفانی تودوں اور اس کے باعث سیلاب میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہمالیائی خطے میں آباد 24 کروڑ لوگوں کے لیے تازہ پانی کی دستیابی بھی متاثر ہوگی اور اس کے ساتھ ہی ان 1 ارب 65 کروڑ لوگوں کو بھی پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جو پہاڑوں سے نکلنے والے 12 دریاؤں کے بہاؤ کے ساتھ آباد ہیں۔
نقل مکانی سے جڑے امور کی ماہر اور رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک امینہ مہارجن کہتی ہیں کہ ان پہاڑوں میں بسنے والے لوگوں نے عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ میں کچھ بھی حصہ نہیں ڈالا ہے لیکن وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت زیادہ خطرے میں ہیں۔
امینہ مہارجن کے مطابق موجودہ صورتحال میں موافقت پیدا کرنے کی کوششیں مکمل طور پر ناکافی ہیں اور انہیں انتہائی تشویش ہے کہ کسی بڑے تعاون کے بغیر یہ کمیونٹیز اس سے نمٹنے کے قابل نہیں رہیں گی۔
اس سے قبل مختلف رپورٹس بتاتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ کرائیوسفیئر یعنی زمین پر برف اور برف سے ڈھکے ہوئے علاقے متاثر ہوئے ہیں، جب کہ حالیہ تحقیق کے مطابق صرف ماؤنٹ ایورسٹ کے گلیشیئرز کی گزشتہ 30 سالوں کے دوران اتنی برف پگھل چکی ہے جسے بصورت دیگر پگھلنے کے لیے 2000 سال درکار ہوتے۔
امینہ مہارجن کہتی ہیں کہ ان کی ٹیم نے پہلی بار اس پہاڑی علاقے میں پانی، ماحولیاتی نظام اور معاشرے کے ساتھ کرائیوسفیئر کی تبدیلی کے درمیان روابط کا نقشہ مرتب کیا ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قبل از صنعتی انقلاب درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سیلسیئس یا 2 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت تک اضافہ سے پورے خطے میں موجود گلیشیئرز کا اپنے حجم کا 30 سے 50 فیصد تک حصہ 2100 تک پگھل جائے گا۔
لیکن گلیشیئرز کہاں زیادہ پگھلیں گے اس کا انحصار ان کے مقام پر ہے۔ موجودہ موسمیاتی پالیسیوں کے تحت عالمی حدت میں 3 ڈگری سیلسیئس کے اضافے سے مشرقی ہمالیہ یعنی نیپال اور بھوٹان کے گلیشیئرز اپنے حجم کے 75 فیصد تک حصے سے محروم ہوجائیں گے۔ اگر عالمی حدت میں اضافہ 4 ڈگری سیلسیئس تک ہونے کی صورت میں 80 فیصد تک گلیشیئرز پگھل سکتے ہیں۔
ماحولیاتی سائنسدان اور ICIMOD کی رپورٹ کے سرکردہ مصنف فلپس ویسٹر سمجھتے ہیں کہ ہم گلیشیئرز سے ایک صدی کے عرصے میں محروم ہورہے ہیں۔
مکمل تصویر
ہندو کش ہمالیہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان میں 3,500 کلومیٹر یعنی 2,175 میل تک پھیلا ہوا ہے۔
سائنس دانوں نے اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ آب و ہوا کی تبدیلی ہندوکش ہمالیہ کو کس طرح متاثر کر رہی ہے کافی مشکلات سے دوچار رہے ہیں۔ یورپی ایلپس اور شمالی امریکا کے روکی ماؤنٹین کے برعکس اس خطے میں فیلڈ پیمائش کے طویل تاریخی ریکارڈ کا فقدان ہے، جو یہ بتاسکتا کہ گلیشیئر پھیل یا اس کے برعکس سکڑ رہے ہیں۔
1970 میں شروع کی جانے والی اس خطے کے گلیشیئرز کی جاسوسی سیٹلائٹ سے حاصل تصاویر، جنہیں امریکا نے 2019 میں ڈی کلاسیفائیڈ کیا، تحقیق کی اس دنیا سے متعلق ایک نئی سائنسی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
گزشتہ 5برسوں کے دوران سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں مزید پیشرفت، تیز رفتار فیلڈ ریسرچ کے ساتھ ساتھ، سائنس دانوں کی ان مسلسل تبدیلیوں کے بارے میں سمجھ بوجھ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ دسمبر 2022 تک کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی سائنسدان فلپس ویسٹر کو خطے کے 2019 کے ICIMOD کے جائزے کے مقابلے میں حالیہ رپورٹ کے نتائج پر بہت زیادہ اعتماد ہے۔’ہمیں بہتر اندازہ ہے کہ عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث مختلف سطح پر 2100 تک کیا نقصانات رونما ہوں گے۔ اور یقیناً اس نئی تفہیم کے ساتھ ہندوکش ہمالیہ میں بسنے والے لوگوں کے لیے شدید تشویش بھی سامنے آئی ہے۔
رپورٹ میں پتا چلا ہے کہ گنگا، سندھ اور میکونگ سمیت خطے کے 12 دریاؤں کے طاسوں میں پانی کا بہاؤ وسط صدی کے آس پاس عروج پر ہوگا، جس کے نتیجے میں 1.65 بلین سے زائد افراد جو پانی کی اس قدرتی ذریعہ پر انحصار کرتے ہیں متاثر ہوں گے۔
فلپس ویسٹر کے مطابق اگرچہ اس کا دوسرا مطلب یہی ہوگا کہ ہمارے پاس زیادہ پانی ہو گا کیونکہ گلیشیئرز بڑھتی ہوئی رفتار سے پگھل رہے ہیں مگر بہت کثرت سے یہ ایک مستحکم بہاؤ کے بجائے سیلاب کے طور پر پیدا ہو گا۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان پہاڑوں پر موجود 200 گلیشیئر جھیلوں کو خطرناک سمجھا جاتا ہے اور اس خطے میں صدی کے آخر تک برفانی جھیلوں کے سیلاب میں نمایاں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے لیکن ایک بار سیلابی کیفیت کے خاتمہ پر پانی کی سپلائی آخر کار کم ہو جائے گی۔
انٹرنیشنل کرایوسفیئر کلائمیٹ انیشی ایٹو کے ڈائریکٹر پام پیئرسن کے مطابق ان خطوں میں ایک بار برف پگھلنے کے بعد، اسے اس کی جمی ہوئی شکل میں واپس لانا بہت مشکل ہے۔
’یہ سمندر میں ایک بڑے جہاز کی طرح ہے۔ ایک بار برف چلنے لگتی ہے تو اسے روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لہذا گلیشیئرز کے ساتھ، خاص طور پر ہمالیہ کے بڑے گلیشیئرز، ایک بار جب وہ بڑے پیمانے پر سکڑنا شروع کر دیتے ہیں، تو یہ ایک طویل عرصے تک جاری رہے گا، اس سے پہلے کہ وہ مستحکم ہو جائیں۔‘
پام پیئرسن کے مطابق زمین کی برف، پرما فراسٹ اور برف کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ گرمی کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود کیا جائے جس پر 2015 کی پیرس کلائمیٹ کانفرنس میں اتفاق کیا گیا تھا۔
’مجھے احساس ہے کہ زیادہ تر پالیسی ساز مقصد کو سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن، کرائیوسفیئر میں پہلے سے ہی مستقل نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہمالیائی کمیونٹیز پہلے ہی محسوس کر رہے ہیں۔‘