9 مئی واقعات کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چلنے چاہییں: رہنما پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر

ہفتہ 24 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چلنے چاہیے کیونکہ قانون کے مطابق یہ جرائم اس زمرے میں نہیں آتے۔

وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 1966ء میں جنرل ایوب خان نے آرمی ایکٹ میں جو ترمیم کی تھی اس کے تحت صرف دو طرح کے جرائم میں ملوث سویلین کا مقدمہ اس ایکٹ کے تحت چلایا جا سکتا ہے جن میں ایک جاسوسی ہے اور دوسرا بغاوت اور 9 مئی کے واقعات ان دونوں میں نہیں آتے۔

قانون کے مطابق کارروائی کی جائے

سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ کوئی جمہوری شخص کیسے سویلین کے مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت چلائے جانے کی حمایت کر سکتا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے واضح کیا کہ ان کی جماعت کا موقف ہے کہ 9 مئی کے واقعات حق اظہار رائے کے زمرے میں نہیں آتے اور ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ہمارا موقف ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ یعنی ہماری قیادت نے یہ بھی نہیں کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کرو اور یہ بھی نہیں کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی نہ کرو۔

بینظیر شہید کا بڑا فیصلہ

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی ذاتی رائے میں کیا فوجی عدالت میں ٹرائل ہونا چاہیے تو ان کا کہنا تھا کہ نہیں۔ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں ہمارے لیے تو المیہ اس لیے بھی ہے کہ شہید بینظیر بھٹو جب پہلی بار وزیراعظم بنیں اور 2 دسمبر 1988ء کو حلف لیا تو ان کی پہلی تقریر کا جو مسودہ میرے سامنے تیار ہوا تو اس میں انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس سے جن لوگوں کو سزا ہوئی ہے، میں ان لوگوں کو چھوڑ رہی ہوں۔ اور جب انہوں نے یہ بات کی تو میں نے ان سے کہا کہ وزیراعظم صاحبہ امید ہے آپ نے صدر غلام اسحٰق خان سے بات کی ہے کیونکہ یہ بہت بڑا فیصلہ ہے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ان کو یاد ہے کہ بینظیر بھٹو نے ان کو کیا جواب دیا تھا۔ ان کے الفاظ یہ تھے کہ ’مجھے کہا جاتا ہے کہ آٹھویں ترمیم اس امر میں مانع ہے  میں کسی چیز کو راستے میں نہیں آنے دوں گی۔ جب تک میں اپنی تقریر ختم کروں گی کہ (میری ٹیم کی جانب سے ) کوئی (قانونی) راستہ نکل چکا ہو گا‘۔

سول ملٹری تعلقات کا توازن مزید خراب ہوا ہے

سابق سینیٹر  فرحت اللہ بابر کے مطابق 9 مئی کے بعد سول ملٹری تعلقات کا توازن مزید خراب ہوا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی پارٹی کے لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن کا اس سلسلے میں موقف درست ہے جن کو پارٹی نے سپریم کورٹ میں اسی کیس کی پیروی کی وجہ سے معطل کر رکھا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا موقف رکھنے والا غدار نہیں ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو معاملہ سپریم کورٹ نہ جاتا اور ایک سابق چیف جسٹس عدالت میں نہ جاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں مگر اس پر بحث ہونی چاہیے تاہم اگر پارٹی کہتی ہے کہ میں غلط ہوں اور ٹرائل ہونا چاہیے تو میں پارٹی کے فیصلے کا پابند ہوں۔

بھٹو خاندان کے ساتھ چار عشروں کا تعلق

فرحت اللہ بابر نے بھٹو خاندان سے اپنے طویل تعلق کے حوالے سے بتایا کہ وہ 70 کی دہائی میں اس وقت کے صوبہ سرحد کے ڈائریکٹر انفارمیشن آفیسر تھے جب ذوالفقارعلی بھٹو ملک کے صدر اور وزیراعظم تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ شناسائی ہو گئی اور وہ انہیں نام سے پہچاننے لگے۔

 ذوالفقار بھٹو نے کمرے میں بند کروا دیا

فرحت اللہ بابر کے مطابق ایک دن فون آیا کہ وزیراعظم (بھٹو) نے آپ کو بلایا ہے اور ٹائپ رائٹر ساتھ لے کر آنا ہے۔ وہاں پہنچا تو وزیراعظم نے کہا کہ میں اس حکومت کو ڈس مس کر رہا ہوں اور تم اپنی طرف سے پریس ریلیز بنا لو اور کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے تم کو کمرے میں بند کر دیا جائے گا۔

میں کمرے میں بند ہو گیا اور یہ سوچتے ہوئے پریس ریلیز بنانا شروع کر دی کہ پتا نہیں وزیراعظم کو پسند آئے گی یا نہیں۔ سارا دن کمرے میں رہا پھر شام کو وزیراعظم صاحب نے بلایا اور 2 صفحوں کو آدھے منٹ میں پڑھ لیا اور صرف ایک لفظ کی تصحیح کی۔ میں بہت متاثر ہوا ۔ اس کے بعد پریس ریلیز اخبارات کو جاری کی گئی اور یوں شیرپاؤ حکومت برطرف کر دی گئی۔

نصرت بھٹو کو پشتو سکھانے کی ذمہ داری

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے مجھے بیگم نصرت بھٹو کو پشتو سکھانے کی ذمہ داری بھی دی تاکہ وہ جب جلسوں سے خطاب کریں تو  کچھ پشتو کے الفاظ بولیں تاکہ لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی ہو۔

پشتو اخبار سے متعلق رائے

ایک دن بھٹو صاحب نے کہا کہ ایک فلاں پشتو اخبار والے کے بارے میں اپنی رائے دو۔ اس کے بارے میں عام تاثر تھا کہ وہ محب وطن نہیں، افغان حکمرانوں کے قریب ہے۔ تاہم میں نے لکھا کہ وہ ٹھیک آدمی ہے اور محب وطن ہے۔ جب میں لکھ کر نکلا تو پتا چلا کہ بھٹو صاحب نے ڈی جی ریڈیو سے بھی علیحدہ رائے لی۔ تاہم مجھے خوشی ہوئی کہ انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا۔

بینظیر کی تقریر نویسی

جب بینظیر بھٹو  1986ء میں جلاوطنی سے واپس آئیں تو فرحت اللہ بابر فرنٹیئر پوسٹ کے ایڈیٹر تھے، ان کے مطابق بینظیر بھٹو نے مجھ سے ملاقات کی اور پھر اپنی شادی پر بھی بلایا۔ جب ان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے مجھے اپنا تقریر نویس بنا لیا۔

فرحت اللہ بابر کے مطابق تقریر نویس کو کسی رہنما کی سوچ سے وہ آگاہی حاصل ہو جاتی ہے جو عام لوگوں کو نہیں ہوتی۔

بینظیر سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا

بھٹو خاندان خاص کر بینظیر بھٹو کا انداز یہ تھا کہ وہ تقریر نویس کو ڈیڑھ دو گھنٹے کا ٹائم دیتی تھیں، اس کے بعد تقریر لکھ کر ان کو دکھائی جاتی، تو اس پر بات چیت ہوتی اور اسے فائنل کرتی تھیں۔

فرحت اللہ بابر کے مطابق اس طرح تقریر نویس کو آگاہی ہو جاتی ہے کہ ایک لیڈر کے خیالات کیا ہیں؟ ان کی امیدیں کیا ہیں اور خوف کیا ہے؟ بینظیر بھٹو تقریر کی بہت تیاری کرتی تھیں ان سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ وہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت تک ساتھ رہے، پھر ان کے بعد سابق صدر آصف زرداری کے تقریر نویس اور ترجمان رہے اور اب بلاول کے ساتھ منسلک ہیں۔

جب بینظیر بھٹو نے فرحت اللہ بابر کی تقریر مسترد کر دی

سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے بینظیر بھٹو کی فلسفیانہ سوچ کا اندازہ اس وقت ہوا جب وہ قاہرہ میں بین الاقوامی پاپولیشن کانفرنس کے لیے جا رہی تھیں، تو انہوں نے تقریر لکھنے کا کہا۔ میں نے تقریر لکھ دی۔ جب ڈسکس کی باری آئی اور انہوں نے تقریر دیکھی تو خاصا ناراضگی ظاہر کی کہ ایف بی (فرحت اللہ بابر) یہ کیا ہے؟ یہ کوئی تقریر ہے۔ میں بڑا پریشان ہوا کہ میں نے تو اپنی طرف سے اچھی تقریر لکھی تھی ہمیشہ کی طرح۔

بینظیر کی خود کلامی

فرحت اللہ بابر کے مطابق اس کے بعد محترمہ نے خودکلامی کے انداز میں بولنا شروع کر دیا۔ دس بارہ منٹ تک بولتی رہیں کہ میرا تو یہ خیال تھا، میرا تو یہ خواب تھا، خواتین کے حوالے سے کیا میرا حق نہیں کہ خواب دیکھوں۔

سابق سینیٹر کے مطابق پھر ہم نے تقریر اسی سے فائنل کی۔ اس کے آخری الفاظ بھی بینظیر کے خواب کے متعلق تھے کہ ’میرا پاکستانی خواتین کے حوالے سے یہ خواب ہے، ایشیا کی خواتین کے یہ خواب ہیں، ہاں یہ صرف خواب ہے مگر خواب دیکھنا میرا حق ہے‘۔

پیپلز پارٹی کی رہنما کے مطابق یہ تقریر بہت مشہور ہوئی۔ اس سے ان کے خواتین کے حوالے سے خیالات کا پتا چلتا ہے۔

بلاول بھٹو کو سیکھنا ہو گا

فرحت اللہ بابر نے بینظیر بھٹو اور بلاول میں تقابل کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ میرا خیال ہے کہ شہید بینظیر بھٹو بہت آگے تھیں۔ بلاول اور بینظیر دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ دونوں بہت محنتی ہیں، تاہم پتا نہیں مجھے یہ کہنا چاہیے یا نہیں مگر جس چیز میں بینظیر اور بلاول میں فرق نظر آتا ہے وہ یہ کہ بینظیر بھٹو بہت منظم تھیں۔ ہر کام کا وقت مقرر کر رکھا تھا، اس میں بلاول بھٹو کو وقت لگے گا  کہ وقت کو کیسے استعمال کریں۔ جس طرح بی بی نے اپنے مصروفیت کے ساتھ وقت کا استعمال کیا وہ بلاول بھٹو کو سیکھنا ہوگا۔

آصفہ بھٹو میں اسپارک موجود ہے

اس سوال پر کہ بینظیر بھٹو کے 3 بچوں میں سے کس میں زیادہ پوٹینشل ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو ظاہر ہے درست جا رہے ہیں لیکن آصفہ بھٹو میں بھی سیاسی سوجھ بوجھ ہے۔ گو کہ وہ ابھی لائم لائٹ میں نہیں مگر ان کے اندر اسپارک موجود ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp