خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں سکھ برادری بڑی تعداد میں آباد ہے۔ پشاور کے علاوہ بونیر، ڈی آئی خان، سوات، قبائلی ضلع خیبر اور دیگر شہروں میں بھی سکھ آباد ہیں۔ سکھ برادری کے مطابق ان کی سب سے زیادہ آبادی 15 ہزار کے قریب پشاور میں آباد ہے۔ ان کی اکثریت ضلع خیبر میں سیکیورٹی خدشات کے باعث پشاور منتقل ہوئی ہے۔ پشاور کے قدیم اندرون شہر میں سکھ برادری کا مذہبی اور ثقافتی امین محلہ جوگن شاہ ہے جسے پشاور کا ’منی امرتسر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں کی تنگ اور گنجان آباد گلیوں مسلم تیوہار عید پر جشن کا سماں ہے۔ رنگ برنگی پگڑیاں پہنے اور نئے جوڑے تن زیب کرکے سکھ برادی سے تعلق رکھنے والے بچے، نوجوان اور عمر رسیدہ افراد کے چہروں پر خوشی ہے اور وہ اپنے مسلمان پڑوسیوں اور محلہ داروں کو عید کی مبارک باد دے رہے ہیں جبکہ جانوروں کی قربانی کی جگہ سکھ بچے اور نوجوان خدمت میں پیش پیش ہیں۔ سکھ خواتین بھی سج دھج کر سب کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔
عید خوشی کا دن ہے
ایم بی بی ایس کے طالب علم جوجار سنگھ کہتے ہیں مذہبی تیوہار عید الاضحی پر صرف تعلیمی ادارے سے چھٹیاں ہی نہیں ملتیں بلکہ ان کے لیے بھی خوشی کا دن ہے، جو ہم مکمل تیاری کے ساتھ مناتے ہیں اور اپنے مسلمان ہمسائیوں اور محلے داروں کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے محلہ جوگن شاہ کے رہائشی سماجی کارکن رادیش سنگھ ٹونی بھی عید پر مسلمانوں کی خوشیوں میں نہ صرف شریک ہوتے بلکہ دوست احباب کی خدمت بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں عید، رمضان اور دیگر تیوہاروں سے ان کی بہت سی اچھی یادیں وابستہ ہیں۔
’رمضان میں خدمت اور عید پر میٹھا کھاتے ہیں‘
رادیش سنگھ ٹونی برسوں سے رمضان المبارک میں سکھ برادری کی جانب سے شہر کے مختلف مقامات پر افطار دسترخوان کا اہتمام کرتے ہیں جو اب بھی جاری ہے۔ وہ کہتے ہیں وہ دل سے مسلمانوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ عید ہمارے لیے بھی خوشی کا موقع ہے، خصوصی دعا کرتے ہیں۔ عید کے دن دوستوں اور پڑوسیوں کو مبارک دینے جاتے اور میٹھا کھاتے ہیں۔ بڑی عید پر ان کے لیے خصوصی دعوت بھی کرتے تھے۔
بابا گرونانک کے پیروکار جوجار سنگھ کہتے ہیں کہ عید کا آغاز بھی میٹھے سے ہوتا ہے پھر دوستوں اور محلہ داروں کو مبارک دیتے وقت بھی میٹھا کھا لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عید ان کے لیے بھی خوشی کا تیوہار ہے۔ ہماری آنکھ ایسے محلے میں کھلی جہاں مسلم اور سکھ برادری ایک ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہوتے اور مذہبی عقیدے کا احترام کرتے ہیں۔
عید کے لیے نئے کپڑے لیے جاتے ہیں
جوجار سنگھ کہتے ہیں کہ وہ عید اور دیر مذہبی تیوہاروں میں شرکت ہیں جس کے لیے ان کے گھروں میں بھی تیاری ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح مسلمانوں کے لیے گھروں میں ہوتی ہے۔ عید کے مواقع پر نئے جوڑے ضرور بناتا ہوں اور عید کے روز پہنتا ہوں۔کہتے ہیں ہماری نوجوان نسل بھی عید کی خوشیوں میں آگے آگے ہوتی ہے، نئے کپڑے سلواتے ہیں اور دیگر خریداری بھی کرتے ہیں۔
قربانی کے وقت دوستوں اور محلے داروں کا ہاتھ بٹاتے ہیں
جوجار سنگھ نے بتایا کہ بڑی عید کے موقع پر بھی وہ مسلم برادری کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر خوشیاں مناتے ہیں۔ عید کی نماز کے فوراً بعد ہی جانوروں کی قربانی شروع ہو جاتی ہے اور بچپن سے ہم جلدی اٹھ کر قربانی دیکھنے جاتے ہیں۔ ہم قربانی کے دوران مدد بھی کرتے ہیں۔ پانی لانا ہو، گوشت کو اٹھا کر رکھنا ہوا، سب کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔
سکھ بڑا گوشت نہیں چھوٹا گوشت کھاتے ہیں
رادیش سنگھ ٹونی کہتے ہیں کہ پشاور میں مقیم سکھ افراد عید قربان پر قربانی کی جگہ ضرور جاتے ہیں، ہاٹھ بٹاتے ہیں، سب سے ملتے اور مبارک باد دیتے ہیں۔ یہی بابا گرونانک نے ہمیں سکھایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ قربانی کے بعد دعوت بھی ہوتی ہے لیکن سکھ بڑا گوشت نہیں کھاتے بلکہ چھوٹا گوشت کھاتے ہیں اور جن دوستوں یا محلہ داروں کے ہاں دنبے یا بکرے کی قربانی ہوتی ہے وہ ہمیں گھر دعوت پر بلاتے ہیں۔ ہم بڑی عید کے موقع پر اپنے محلے کو صاف رکھنے کے لیے صفائی مہم میں بھی حصہ لیتے ہیں۔
’عید سے پہلے سکھوں پر حملوں سے غمگین ہیں‘
رادیش سنگھ ٹونی نے گزشتہ دنوں 24 گھنٹوں کے دوران 2 سکھوں کو نشانہ بنانے پر دکھ کا اظہار کیا، جس میں ایک جان سے گیا اور دوسرا زخمی ہوا تھا۔ ٹونی نے بتایا کہ اس بار امن دشمن عناصر کے حملوں کی وجہ سے عید کے خوشی پر بھی ان گھروں میں ماتم ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت ان حملوں میں ملوث چہروں کو بے نقاب کرے گی۔
’ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں‘
خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر پیر بابا میں سکھوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ بونیر پیر بابا کے رہائشی قیصر خان نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کے علاقے اور محلے میں کافی تعداد میں سکھ پشتون سے آباد ہیں۔ یہاں بہت مذہبی ہم آہنگی ہے سب ایک دوسرے کی خوشیوں اور دکھ درد میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ عید پر سکھ ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں مبارک باد دینے آتے ہیں جب کہ ان کے تیوہار پر مسلم بھی خوش دلی سے شریک ہوتے ہیں۔