بڑی عید کی بڑی رونقیں

بدھ 28 جون 2023
author image

احمد شعیب

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مجھے بچپن سے ہی بڑی عید ‘بڑی’ پسند ہے۔ اُس کی ایک بڑی وجہ تو گوشت ہی ہے۔ میں گوشت سے بنی تقریباً ہر چیز ہی کھانے کا دیوانہ ہوں لیکن دوسری وجہ جس کے باعث یہ عید میری فیورٹ ہے وہ اس سے جڑی رونقیں ہیں۔

عید کے دن رونق سے بھرپور ہوتے ہیں، آپ جہاں جاتے ہیں، آپ کو بڑی عید کی ایک ‘وائب’ سی نظر آتی ہے۔ بازاروں میں اچانک سے کوئی بکرے، بیل یا دنبے گھماتا ہوا نظر آئے گا اور لوگ حسرت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھیں گے اور پھر کوئی اُن کی قیمت پوچھے گا اور  کوئی حسرت سے دیکھتا جائے گا۔

تقریباً ایک ہفتہ پہلے میں ایک منڈی کے قریب سے گزرا، رات کے 10 بج رہے تھے، منڈی فلڈ لائٹس سے یوں چمک رہی تھی جیسے کوئی کرکٹ سٹیڈیم ہو، منڈی کے اندر بڑے جانور تو اتنے نہیں تھے، لیکن بکروں کی بھرمار تھی جو کہ خوبصورت انداز میں سلیقے سے کھا پی رہے تھے لیکن گاہک اتنے موجود نہیں تھے۔

بڑی عید آتی ہے تو گلی محلوں میں بپھرے بیلوں اور گائے کی ویڈیوز ضرور سامنے آتی ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ مجھے یاد ہے، کچھ سال پہلے ہم بڑی عید پر اپنے گاؤں آئے۔ عید کی نماز کے بعد ہم گائے کو لے کر گھر سے باہر والی زمین میں گئے اور وہاں گائے اچانک بپھر گئی۔ گائے کی رسی میرے ایک چچا کے ہاتھ میں تھی، گائے جب بھاگی تو وہ بھی اُس کے ساتھ بھاگے اور اچانک اُن کا پاؤں پھسلا جس کے باعث وہ اپنا ہاتھ زخمی کروا بیٹھے۔

گائے کو سب نے جیسے تیسے قابو کر لیا لیکن مجھے یاد ہے چچا کئی ہفتوں تک اپنا ہاتھ پکڑ کر بیٹھے رہے۔ ویسے بڑی عید پر جانوروں کا بپھرنا دیہاتوں سے زیادہ شہروں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ  ہے کہ شہروں کی منڈیوں میں آنے والے جانور دیہاتوں سے آتے ہیں اور پھر وہ چھوٹی جگہ پر دل چھوٹا کر لیتے ہیں جس کے باعث اُن کا غصہ پھر عوام پر نکلتا ہے۔

اس عید پر سب سے زیادہ چاندی تو بیوپاریوں کی ہوتی ہی ہے لیکن سب سے زیادہ خطرہ بھی انہیں ہی ہوتا ہے۔ ہر عید پر خبریں آتی ہیں کہ منڈی میں بیوپاری کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ کبھی کوئی شاطر گاہک کسی بیوپاری کو جعلی رقم دے کر فرار ہو جاتا ہے تو کبھی کسی بیوپاری کی ہی جیب کٹ جاتی ہے۔

دوسری جانب منڈیوں میں لٹنے والے صرف بیوپاری ہی نہیں بلکہ گاہک بھی ہوتے ہیں۔ اکثر شہری گاہک کم عمر یا عیب دار جانور لے آتے ہیں یا پھر اُس کی اصلی قیمت سے دوگنی قیمت دے آتے ہیں۔

دو سال پہلے کی بات ہے، میری ایک یونیورسٹی فیلو کے مرحوم والد صاحب نے منڈی جا کر 60 ہزار روپے کا ایک بکرا خریدا اور اسے ایک سوزوکی لوڈر میں لوڈ کروایا۔ لوڈر والے نے کہا آپ آگے آگے چلیں، میں پیچھے پیچھے آتا ہوں، اسی دوران رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ لوڈر والا رفو چکر ہوگیا اور بیچاری سادہ لوح پڑھی لکھی فیملی کو 60 ہزار روپے کی پھکی پڑنے کے بعد نیا بکرا خریدنا پڑا۔

اگر عید کے روز بننے والے پکوانوں کی بات کی جائے تو اس میں سہرفہرست آج بھی دوپہر کے وقت بننے والی کلیجی ہے۔ اس کا سب کو شدت سے انتظار ہوتا ہے کیونکہ تقریباً سب لوگ ہی کلیجی کی امید پر ناشتہ ہلکا پھلکا کرتے ہیں۔ اصلی کھیل شام کے بعد یا پھرعید کے دوسرے دن شروع ہوتا ہے جب باربی کیو، پلاؤ اور کڑاہی پر سب خوب ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ مجھے ابھی بھی یہ محسوس ہوتا ہے عید پر بننے والے کھانے عام دنوں کی نسبت زیادہ مزیدار لگتے ہیں شاید اس کی وجہ گوشت کی تازگی اور قربانی کی برکتیں ہوتی ہیں۔

یہاں اصل بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ عید الاضحیٰ صرف گوشت کھانے یا پیسے خرچ کرنے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد رب کی رضا پر راضی ہو کر اپنی انا اور خواہشات کو قربان کرنا ہے۔ اس عید پر جہاں آپ اپنے دسترخوان سجا رہے ہیں، وہیں کوشش کریں کہ اپنے اردگرد کے لوگوں کا بھی خیال رکھیں۔ اصلی عید یہی ہے۔ اصلی قربانی یہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp