اقوام متحدہ نے ایران میں خواتین کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کی تحقیقات کے لیے 3 خواتین کو نامزد کیا ہے، اس آزاد کمیشن میں پاکستانی قانون کی پروفیسرشاہین سردار علی بھی شامل ہیں جبکہ دیگر ارکان بنگلادیش کی سپریم کورٹ کی وکیل سارہ حسین اور ارجینٹینا کی انسانی حقوق کی کارکن ویویانا ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سربراہ فیڈریکو ولیگاس نے منگل کے روز اعلان کیا کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کی وکیل سارہ حسین، قانون کی پاکستانی پروفیسر شاہین سردار علی اور ارجنٹینا سے انسانی حقوق کی کارکن ویویانا کرسٹیوچ ایران میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی تحقیقات کرنے والے آزاد کمشن کی ارکان ہوں گی۔
’کمیشن کی سربراہی بنگلادیش کی سپریم کورٹ کی وکیل سارہ حسین کریں گی۔‘
اخبار’عرب نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی قانون کی پروفیسر شاہین سردارعلی برطانیہ کی یونیورسٹی آف واروک میں پڑھاتی ہیں، انہوں نے انسانی حقوق خاص طور پر خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے بہت سی خدمات سر انجام دے رکھی ہیں۔
فیڈریکو ولیگاس کے مطابق تینوں خواتین ایرانی حکام کی طرف سے خواتین کے مظاہروں پر جبرو تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویز کریں گی تاکہ ایرانی حکام کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی کی جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق ایران، بین الاقوامی تحقیقات کی شدید مخالفت کررہا ہے، ایرانی حکام کی جانب سے اقوام متحدہ کے قائم کردہ کمیشن کو ملک میں داخل ہونے اور اپنے مشن کو انجام دینے کی اجازت دینے کا امکان بھی نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ستمبر کے وسط سے اب تک لگ بھگ 14,000 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جب کہ اوسلو میں قائم این جی او ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ 469 مظاہرین مارے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں
رپورٹ کے مطابق ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد سے بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں جبکہ ایرانی خاتون مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد یہ مظاہرے پورے ملک میں پھیل چکے ہیں جس کے نتیجے میں ایرانی حکام کی جانب سے کریک ڈاؤن کے بعد مظاہرے پرتشدد صورت اختیار کرگئے اور ان میں پلاکتیں بھی ہوئیں۔
واضح رہے 22 سالہ نوجوان خاتون مہسا امینی کو ایرانی پولیس نے حجاب کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا تھا، اور وہ دوران حراست ہلاک ہوگئی تھیں جس کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے۔
احتجاج کے خلاف ردعمل کے طور پر ایرانی حکام بعض مظاہرین کو پھانسی بھی دے چکے ہیں۔ وہ الزامات عائد کرتے ہیں کیا کہ ملک میں ہونے والے فسادات کی حوصلہ افزائی دشمن ممالک اسرائیل اور امریکا کی جانب سے کی گئی ہے۔