اگلی باری کس کی ؟ 

ہفتہ 8 جولائی 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

‎ بازی پلٹنی ہو، تخت گرانے ہوں، نئی حکومت لانی ہو، مذاکرات کی میز سجانی ہو یا کوئی شرط منوانی ہو۔ ہر طرف’ لندن‘ اور ’لندن پلان‘ کی صدائیں ہی سنائی دیتی تھیں کہ بیٹھک اُدھر لگتی ہے، اسٹیک ہولڈرزاتفاقِ رائے سے ’پاور شیئرنگ‘ فارمولا طے کرتے ہیں کہ کون کس عہدے کا اہل ہو گا اور کتنا مالِ غنیمت سمیٹے گا۔ بقول جناب عمران خان ’لندن پلان‘ کے تحت ہی ان پر سیاسی میدان تنگ کیا گیا اور اس میں اسٹیبلشمنٹ کا بھی بھرپور کردار ہے کیونکہ ان کی حمایت کے بغیر موجودہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی تھی۔

‎اسی طرح پرانا کھیل ایک بار پھر نئے سِرے سے رچایا جا رہا ہے لیکن اب کی بار لندن نہیں بلکہ’دبئی پلان‘ کی باز گشت ہے جہاں تمام بڑوں کی بیٹھک لگی، حصول ِ اقتدار کے لیے نئی صف بندیاں ترتیب دی گئیں، اگلی باری اور انتخابات کے وقت کا تعین بھی کیا گیا۔

‎فیصلہ سازوں نےنئے مہرے عمران خان کو سائیڈ لائن کیا اور بیک اپ پلان کے تحت میدان سے باہر پھینکے گئے ان منجھے ہوئے کھلاڑیوں کودوبارہ میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا جن کو عمران خان کی نفرت اور اقتدار کی کشش نے حریف سے حلیف بننے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور اب منصوبہ بندی سے جگہ ترتیب دی جا رہی ہے کہ کس مہرے کو کون سے منصب سے نوازا جائے گا۔

‎لیکن انتخابات سے قبل تمام جماعتیں پیشگی یقین دہانی چاہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت تو ن لیگ مقدمات کے خاتمے کی صورت، جو دبئی پلان میں ان کو دی جاچکی ہیں۔ اورپی ڈی ایم کے اعتماد کی وجہ بھی عمران خان کی مقتدر حلقوں سے دوری اور اسٹیبلشمنٹ سے بڑھتی ہوئی قربتیں اور حمایت ہے۔ اسی حمایت کے پیشِ نظر نواز شریف کے لیے عدالتی منظر نامہ تبدیل ہونے اور انہیں عدالتوں سے ریلیف ملنے کا امکانات روشن ہیں جس کے بعد وہ جلد یا بدیر پاکستان آنے کا فیصلہ کریں گے۔

ِ‎حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عمران خان کو زِیر کرنے کےبعد پی ڈی ایم کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے پھوٹ سکتی ہے کیونکہ ’مفاداتی‘سیاسی حریف ایک دوسرے پر پوری طرح اعتماد کرتے دکھائی نہیں دیتے۔اور پھر مد مقابل ہونے والے اصل کھلاڑی تو نواز شریف اور آصف زرداری ہیں جن کے درمیان وزارتِ عظمیٰ کے حصول کی جنگ چھڑی ہے کیونکہ آصف زرداری بلاول بھٹو کو جبکہ نواز شریف خود کو وزارتِ عظمیٰ کا اہل سمجھتے ہیں یا اپنی دختر مریم نواز کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں جس کے لیے حمزہ شہباز کو بھی میدان سے باہر پھینکوا دیا گیا جوآج کل سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہیں ۔

یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ وزارتِ عظمی کی دوڑ میں اب اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر رہنے والے شہباز شریف بھی شامل ہو چکے ہیں جن کی وزیراعظم بننے کی دیرینہ خواہش پوری تو ہو گئی مگر تِشنگی رہ گئی، لیکن جی جان سے فرض نبھانے پر اب اسٹیبلشمنٹ اگلی ٹرم کے لیے بھی ان کو ہی بطورِ وزیراعظم دیکھنے کی خواہشمند ہے کیونکہ موجودہ سیٹ اپ میں ان جیسا تابعدار وزیراعظم شاید ہی مقتدر قوتوں کو مل سکے، اس لیے نواز شریف کو فی الحال دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عملدرآمد کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

‎لیکن دوسری طرف واقفانِ حال یہ بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف کی سعود ی عرب میں اہم ملاقاتیں اور اسٹیبلشمنٹ سے بڑھتی ہوئی حالیہ قربتیں اس بات کا ’اشارہ‘ ہیں کہ اگلی باری انہی کو ملنے والی ہے۔

ایسے وقت میں جب کرسی کے لیے نئے امیدوار کے چناؤ کا وقت قریب ہے اوربظاہر ن لیگ گراؤنڈ پر اپنی پوزیشن مستحکم کرتی نظر آ رہی ہے۔ عمران خان بھی ریاست سے لیے گئے یو ٹرن پر ریورس گیئر لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ مجھے بھی اس دوڑ میں شامل کیا جائے، اب کی بار میں اچھے بچے کی طرح تمام باتیں مانوں گا لیکن فی الحال وہاں سے ایک ہی صدا آتی ہے کہ ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘۔

‎بظاہر پی ڈی ایم کی سیاسی حکمت عملی بڑی عیارانہ ہے مگر اس حکمت عملی میں ایک خامی ہے کہ وہ ایک بار پھرمقتدر قوتوں پر مکمل اعتماد کیے بیٹھے ہیں اوریہ اعتماد ان کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ موجودہ حکومت کے پاس کوئی ایسا کرشمہ نہیں جس سے وہ عوام کو مطمئن کر سکے، معاشی حالات دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں اور کوئی خاص امید بھی نظر نہیں آتی۔ ممکن ہے یہی معاملہ مقتدرہ اور حکومت کے درمیان اختلافات کی خلیج کو مزید بڑھا دے اور مشکلات میں گِھری حکومت مزید مشکل میں گرفتار ہو جائے۔

‎کوئی بعید نہیں کہ فیصلہ ساز ’سجی دکھا کر کھبی مار‘ لیں کیونکہ ان کی دور اندیشی تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اربابِ اختیار حالاتِ حاضرہ پر نہیں بلکہ مفادات کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ جس طرح نواز شریف کی نا اہلی کے بعد دوبارہ سیاست میں انٹری ہو رہی ہے اور وہ سیاست سے غیر متعلق نہیں ہوئےاسی طرح اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی بھی ایک سیاسی جماعت ہے جس سے لوگ والہانہ وابستگی رکھتے ہیں۔ اور تجربات کا چارٹ سامنے رکھتے ہوئے عمران خان کے ساتھ ’مُک مُکا‘ کر کے ان کو بھی کسی ’نئے پلان‘ کے تحت ’گیم‘میں دوبارہ شامل کیا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp