بحیرہ روم سے گزرنے والی تارکین وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی، جس میں 1 شخص ہلاک 10 لاپتا ہو گئے ہیں۔
اتوار کو تیونس کے ایک عدالتی اہلکار نے بتایا ہے کہ کم از کم 10 تیونسی تارکین وطن لاپتا ہو گئے ہیں جب کہ ایک شخص تیونس کے قریب کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہو گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی تارکین وطن بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جون میں بحیرہ روم کے پانیوں میں غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی الٹنے سے قریباً 700 کے قریب افراد لاپتا ہو گئے تھے، جنہیں یونان کی حکومت نے مردہ قرار دے دیا تھا۔ اس میں 300 سے زیادہ پاکستانی بھی شامل تھے، جن میں سے صرف 12 افراد کو زندہ بچا لیا گیا تھا۔ زندہ بچ جانے والے پاکستانی وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ اس وقت تیونس کو نقل مکانی کے ایک بڑے بحران کا سامنا ہے۔ تیونس نے نقل مکانی کے حوالے سے لیبیا کی جگہ لے لی ہے جہاں اس وقت یورپی ممالک میں بہتر زندگی کی تلاش، افریقی اور مشرق وسطیٰ میں غربت اور تنازعات کے باعث لوگ ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں بھاگ رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق تیونس کے تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والے تازہ ترین سانحے کے بعد 2023 کے پہلے 6 ماہ میں شمالی افریقی ملک کے ساحلوں پر مرنے والوں اور لاپتا ہونے والوں کی تعداد 600 سے زیادہ ہو گئی، جو پچھلے کسی بھی سال کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔
واضح رہے کہ تیونس کے انسانی حقوق کے فورم برائے اقتصادی اور سماجی حقوق نے بتایا ہے کہ اس وقت تک تیونس کے تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے ہلاک اور لاپتا ہونے والوں کی تعداد 608 تک پہنچ گئی ہے جب کہ ساحلی محافظوں نے تیونس کے ساحلوں سے تقریباً 33,000 افراد کی کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔
مزید پڑھیں
ادھر تیونس پر یورپی ممالک کا دباؤ ہے کہ وہ اپنے ساحلوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی کو فوری روکے لیکن اس پر تیونس کے صدر قیس سعید نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے۔
تیونس کی حکومت پر الزام ہے کہ وہ سیاہ فام تارکین وطن کو نسل پرستانہ تشدد میں نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہے کیوں کہ اس سال کے شروع میں قیس سعید نے سیاہ فام باشندوں پر الزام لگایا تھا کہ وہ ملک کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی مجرمانہ سازش میں ملوث ہیں۔
اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق شمالی افریقی ملک تیونس دیگر افریقی ممالک کے تقریباً 21,000 غیر قانونی تارکین وطن کی میزبانی کر رہا ہے جو کہ اس کی اپنی آبادی کا 0.2 فیصد ہے۔
واضح رہے کہ تیونس کا ساحل یورپ کے قریب ترین مقام اطالوی جزیرے لیمپیڈوسا سے 130 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ادھر روم نے فروری میں کہا تھا کہ 32,000 سے زیادہ تارکین وطن جن میں 18,000 تیونسی باشندے شامل ہیں، تیونس سے گزشتہ سال اٹلی پہنچے ہیں، جب کہ مزید ہزاروں افراد ہمسایہ ملک لیبیا سے روانہ ہو چکے ہیں۔
ادھر گزشتہ ماہ یونان کشتی حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے پاکستانی نوجوان عثمان صدیق وطن واپس پہنچ گئے ہیں، جنھوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے واقعے کی تفصیل بتائی ہے ۔
یونان کشتی پر رسا پھینکنے والے جہاز نے جان بوجھ کر ریسکیو آپریشن نہیں کیا: عثمان صدیق
عثمان صدیق کا کہنا ہے کہ ہمارا جہاز 2 دن تک ایک ہی مقام پر دائرے کی شکل میں چکر لگاتا رہا، حادثے کی رات نیوی کا ایک جہاز آیا اور اس نے رسی لگانےکی کوشش کی تو جہاز الٹ گیا، رسی ڈالنے والے جہاز نے ہمیں بچانے کی کوشش نہیں کی، 4 سے 5 گھنٹے سمندر میں بچنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور میں معجزانہ طور پر حادثے میں بچ گیا۔
گجرات کے نواحی علاقےکالیکی کا رہائشی 28 سالہ عثمان محکمہ پولیس میں کانسٹیبل تھا، وہ اپنے چار دوستوں کے ساتھ اٹلی جانا چاہتا تھا لیکن ان کی کشتی حادثے کا شکار ہو گئی۔
یونان کشتی میں 350 پاکستانی سوار تھے: عثمان صدیق
عثمان صدیق نے تفصیل بتائی کہ کشتی میں 700 افراد سوار تھے جن میں 350 پاکستانی تھے،کشتی میں سوار ہونے سے قبل ان سے لائف جیکٹس کے لیے رقم وصول کی گئی تھی،6 روز سمندر میں کشتی چلتی رہی اس کا انجن خراب ہو گیا اس دوران ہمیں کوئی کنارہ نظر آیا نا ہی کوئی جزیرہ۔
یاد رہے کہ جون میں ہونے والے ’یونان کشتی ‘ حادثے میں جو لوگ حادثے کا شکار ہوئے ہیں ان میں سے 135 افراد کا تعلق آزادکشمیر کے مختلف علاقوں سے تھا۔ جبکہ کل 310 پاکستانی اس میں شامل تھے جن میں سے 12 کی جان بچ گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حادثے میں مرنے والے 79 افراد کی لاشیں مل گئی تھیں جب کہ سانحہ میں مجموعی طور پر صرف 104 افراد کو ریسکیو کیا گیا تھا، باقی تمام لاپتا افراد کو یونان کی حکومت نے مردہ قرار دے دیا تھا۔