منٹو کا واحد پنجابی افسانہ اور احمد ندیم قاسمی

پیر 10 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں ’میں وہ دن نہیں بھولتا جب منٹو اپنا پہلا پنجابی میں لکھا ہوا افسانہ میرے پاس لائے۔ تب میں روزنامہ ’امروز‘ کا ایڈیٹر تھا۔ میں نے وعدہ کیا یہ افسانہ ’امروز‘ کے پنجابی صفحے پر ضرور چھپے گا مگر چند روز بعد پولیس نے دفتر امروز پر چھاپہ مارا اور ایڈیٹر کی میز کی درازیں بھی خالی کر گئی۔ میں نے باقاعدہ درخواستیں دے کر پولیس افسروں سے عرض کیا منٹو کا وہ افسانہ تو واپس کر دیجئے مگر میری کسی نے نہ سنی۔ میرے پیارے منٹو کی یہ کہانی بھی غائب ہوگئی اور چند ہفتے بعد خود منٹو بھی رخصت ہوگئے۔‘

’پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟‘

احمد ندیم قاسمی شاعر، افسانہ نگار اور مدیر تھے۔ آپ 21 نومبر 1915ء کو موضع انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ خاندانی نام احمد شاہ اور والد محترم کا نام پیر غلام نبی تھا لیکن ’نبی چن‘ کے نام سے معروف تھے۔ قرآن مجید کی تعلیم گاؤں کی مسجد میں حاصل کی۔ میٹرک 1931ء میں شیخوپورہ سے اور بی اے 1935ء میں صادق ایجرٹن کالج بہاولپور سے کیا۔

ملازمت کا آغاز ریفارمز کمشنر لاہور کے دفتر میں محرری سے کیا۔ 1939ء میں ملتان کے ایکسائز آفس میں سب انسپکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1942ء میں مستعفی ہو کر دارالاشاعت پنجاب لاہور سے وابستہ ہو گئے اور یوں ہفت روزہ ’پھول‘ اور ’تہذیب نسواں‘ کی ادارت سنبھالی۔ اسی زمانے میں ماہنامہ ادب لطیف کی ادارت بھی کی۔

1944ء میں سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’بو‘ ادب لطیف میں شائع کرنے پر مقدمہ چلا مگر بری ہو گئے۔ 1946ء میں ادب لطیف کی ادارت سے مستعفی ہو کر اپنے ضلع کی مسلم لیگ کے تحت تحریک پاکستان کے سلسلے میں شبانہ روز کام کیا۔ اس سال کے آخر میں پشاور ریڈیو سے سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے وابستہ ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد ’سویرا‘ کے ادارتی فرائض سنبھالے۔ 1948ء اور 1949ء میں ہاجرہ مسرور کے ساتھ مل کر ’نقوش‘ کے پہلے 10 شمارے مرتب کئے۔ 1949ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے پہلے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ 1951ء میں چند ماہ کے لیے سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل میں رہے۔ 1953ء میں روزنامہ ’امروز‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔

اکتوبر 1958ء تا فروری 1959ء مارشل لاء کے تحت نظر بند رہے۔ 1963ء میں اپنا ادبی جریدہ ’فنون‘ حکیم حبیب اشعر مرحوم کے ساتھ مل کر جاری کیا، جس کی اشاعت کا سلسلہ ان کی زندگی تک جاری رہا۔ اس وقت سے دم مرگ تک مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھتے رہے ہیں جن میں روزنامہ ہلال، پاکستان، احسان، حریت اور جنگ شامل ہیں۔

1968ء میں حُسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس) ملا۔ 4 جولائی 1974ء سے 10 جولائی 2006 تک مجلس ترقی ادب لاہور کے ڈائریکٹر رہے۔ شاعری کے 9 مجموعے: دھڑکنیں، جلال و جمال، شعلہ گُل، دشت وفا، محیط، دوام، لوح خاک، بسیط، ارض و سماء کے نام سے شائع ہوئے۔ افسانوں کے 16 مجموعے ہیں: چوپال، بگولے، طلوع و غروب، گرداب، سیلاب، آنچل، آبلے، آس پاس، درودیوار، سناٹا، بازار حیات، برگ حنا، گھر سے گھر تک، کپاس کا پھول، نیلاپتھر، کوہ پیما۔

آپ کی 2 کتابیں تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں ’پس الفاظ‘ اور ’معنی کی تلاش‘۔ اس کے علاوہ ’میرے ہمسفر‘ شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ آپ کی مرتبہ کتابوں میں زیادہ معروف یہ ہیں: انگڑائیاں، نقوش لطیف اور منٹو کے خطوط۔ مجموعہ کلام ’دشت وفا‘ پر 1964ء میں آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ 1980ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے ’ستارہ امتیاز‘ اور 1996ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ’کمال فن‘ کا ایوارڈ دیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی کو ادبی خدمات کے اعتراف میں 1997 میں پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’نشان امتیاز‘ بھی دیا گیا۔

احمد ندیم قاسمی کے آخری انٹرویو کی کہانی

ان دنوں میں روزنامہ ’جناح‘ اسلام آباد سے بطور میگزین ایڈیٹر منسلک تھا، سنڈے میگزین کے لیے کیا گیا احمد ندیم قاسمی کا زیرنظر انٹرویو 8 جنوری 2006 کے شمارے میں شائع کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ انٹرویو ان کی زندگی کا آخری انٹرویو ثابت ہوا۔ قاسمی صاحب 10 جولائی 2006 کو دنیا چھوڑ گئے۔ یوں ایڈیٹر کی فرمائش پر 16 جولائی 2006 کو مذکورہ انٹرویو دوبارہ شائع کیا گیا تھا۔

جنوری 2006 میں شائع ہوئے انٹرویو کا عکس

منصورہ احمد، قاسمی صاحب کی منہ بولی بیٹی تھیں، انہوں نے قاسمی صاحب کے ادبی مجلے ’فنون‘ کو جاری رکھنا چاہا لیکن انہیں کہا گیا کہ ’فنون‘ سے لاکھوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ منصورہ احمد ان بکھیڑوں میں پڑنا نہیں چاہتی تھیں، اس لیے انہوں نے بیادِ احمد ندیم قاسمی ’مونتاج‘ کے نام سے ایک نئے ادبی مجلے کی بنیاد رکھی۔ اس مجلے کے پہلے شمارے میں بھی منصورہ احمد نے قاسمی صاحب کا مذکورہ انٹرویو اس سرخی کے ساتھ شائع کیا تھا کہ یہ احمد ندیم قاسمی کا آخری انٹرویو ہے۔

8 جولائی 2006ء بروز ہفتہ کو قاسمی صاحب کو سانس کی تکلیف کے بعد لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا تھا، تاہم احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصر علالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ انہیں لاہور میں ملتان روڈ پر ملت پارک کے نزدیک شیخ المشائخ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔ قاسمی نے کہا تھا:

لے جو ٹوٹی تو صدا آئی شکستِ دل کی
رگِ جاں کا کوئی رشتہ ہے رگِ ساز کے ساتھ
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

جولائی 2006 میں قاسمی صاحب کی وفات کے بعد دوبارہ شائع ہوئے انٹرویو کا عکس

احمد ندیم قاسمی دوران انٹرویو کئی سوالات پر خاصے جِزبِز بھی ہوئے لیکن انہوں نے بہرحال ہر سوال کا جواب ضرور دیا چاہے وہ یک سطری جواب ہی کیوں نہ ہو۔ احمد ندیم قاسمی کی 17ویں برسی پر ان کا یادگار انٹرویو ’وی نیوز‘ کے قارئین کے لیے مِن و عن پیش کیا جا رہا ہے۔

 ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟

احمدندیم قاسمی: اپنی زندگی کے ابتدائی ایام کے بارے میں اپنے پہلے مجموعہ کلام ’جلال وجمال‘ کے مفصل دیباچے میں بہت کچھ بتا چکا ہوں۔ بہرحال آپ نے پوچھا ہے تو عرض یہ ہے میں نے اپنے گاؤں (انگہ‘ علاقہ سون سکیسر‘ ضلع خوشاب) میں ابتدا ہی سے امارت اور غربت کے مناظر دیکھے اور یوں میرا معصوم ذہن اس طرح کے سوالات سے اٹ گیا کہ انسانوں کے درمیان یہ تفاوت کیوں ہے جبکہ ہمارے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی مساوات کا درس دیا ہے۔ پانچ معزز گھروں کی حویلی میں میرا گھر غریب ترین تھا مگر میری والدہ اس انتہا تک غیرت مند تھیں انہوں نے ہم بہن بھائیوں کو کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہونے دیا۔ میں نے نہایت خوداعتمادی سے اپنے گاؤں کی مسجد اور مدرسے میں تعلیم حاصل کی اور پرائمری پاس کرتے ہی جب وظیفے کا امتحان دیا تو میں کامیاب ترین بچہ تھا۔ تب مجھے انگہ سے کیمبل پور (حال اٹک) میں اپنے سرپرست چچا پیر حیدر شاہ کے ہاں بھیج دیا گیا اور میں نے وہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان شیخوپورہ میں دیا اور وہیں میری شاعری کا بھی آغاز ہوا۔

ادب کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟

احمد ندیم قاسمی: ادب کا رجحان پیدا نہیں کیا جاتا، یہ رجحان خمیر میں ہوتا ہے۔ صرف کسی خاص موقع پر یا واقعے کے پس منظر میں یہ رجحان بیدار ہوتا ہے۔ میرے اندر کا یہ رجحان ایک آدھ جھٹکے کے بعد، مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کی خبر سن کر بیدار ہوا۔ میرے سرپرست مجھے بتا چکے تھے مولانا ہماری آزادی کے علمبردار تھے، چنانچہ میں نے پندرہ بیس اشعار کا نوحہ لکھا اور چچا جان نے پڑھا تو اس قدر خوش ہوئے کہ شیخوپورہ سے فوراً لاہور پہنچے اور وہاں کے ایک روزنامے نے میری نظم پورے صفحے پر شائع کردی۔ رجحان کی اس بیداری کے بعد آج تک اس رجحان میں تھکن پیدا نہیں ہوئی۔

بچپن کی کچھ یادداشتیں جو آپ قارئین سے شیئر کرنا چاہیں؟

احمد ندیم قاسمی: بچپن کی یادداشتوں میں ایک منظر مجھے اب تک نہیں بھولا میرے ایک عمر دراز بزرگ، میرے والد مرحوم کی پیری کے حوالے سے، ان کے ’حصے‘ کے طور پر سالانہ 20 روپے میری امی کے ہاتھ پر رکھتے تھے تو میں انہیں تنگ کیا کرتا تھا، میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے مجھے شرارت کرنے کی آزادی تھی، چنانچہ ایسی ایسی شرارتیں کی ہیں کہ اب یاد کرتا ہوں تو خود پر ہنسی آتی ہے۔

آج کے ادب میں روح عصر موجود ہے؟

احمد ندیم قاسمی: صرف آج کے ادب میں کیا، کسی بھی دور کے ادب میں روح عصر غیر موجود نہیں ہو سکتی، میر و سودا، مصحفی و انشاء تک کی غزلوں کے پس منظر میں روح عصر موجود ہے۔ صرف ڈوب کر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ آج کے ادب میں تو روح عصر اس حد تک موجود ہے کہ اس کے دھڑکنے کی آواز بھی سنی جا سکتی ہے۔ دراصل روح عصر، ادب کی زندگی کے لیے ہوا کا حکم رکھتی ہے ہوا رک جائے تو پوری دنیا تڑپ کر چل بسے۔

شاعر، افسانہ نگار اور کالم نگار کی حیثیت سے آپ پاکستان کے مسائل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

احمد ندیم قاسمی:شاعر، افسانہ نگار اور کالم نویس کی حیثیت سے میں پاکستان کے سبھی مسائل پر نظر رکھتا ہوں اور یہ دیکھ کر اداس ہو جاتا ہوں ہم جہاں سے چلے تھے، وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے ہیں۔ ہمیں سیاست دانوں اور مارشل لاء نے آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ چنانچہ پاکستان کے جتنے بھی مسائل ہیں وہ لاینحل حالت میں بالکل آسیب کا تاثر دیتے ہیں۔ اگر فیوڈل نظام پاکستان کی ابتداء ہی میں ختم کر دیا جاتا تو آج پاکستان پسماندہ ملک کہلانے کے بجائے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہو رہا ہوتا مگر ہم نے حکومت ہی فیوڈلز کی خدمت میں بطور خراج پیش کر رکھی ہے اس لیے پاکستان کے مسائل کی تفصیل مجھ سے نہ پوچھئے۔

تخلیق کار اور نقاد میں زیادہ اہم کون ہے، برصغیر میں تنقیدنگاری کا مرد میدان کون ہے؟

احمد ندیم قاسمی: تخلیق کار اور نقاد میں زیادہ اہم تخلیق کار ہوتا ہے۔ تنقید تو تخلیق کے ساتھ صرف سایہ بن کر چلتی ہے۔ آج پاکستان میں تنقید نگاری کا کوئی بھی مرد میدان نہیں اور یہ بڑے دکھ کی بات ہے۔

احمد ندیم قاسمی کی یادگار تصویر۔ بشکریہ: منصورہ احمد

تخلیق کار معنی کا حاکم ہوتا ہے، یہ تصور کہاں تک درست ہے؟

احمد ندیم قاسمی: یہ خیال صد فیصد درست ہے تخلیق کار مروجہ الفاظ کو بھی اتنے سلیقے سے اپنی تخلیق میں استعمال کرنے پر قدرت رکھتا ہے جس سے الفاظ کے معنی بدل جاتے ہیں اور جگمگا بھی اٹھتے ہیں۔

تخلیق میں فن اہم ہوتا ہے یا اس کا جمالیاتی پہلو؟

احمد ندیم قاسمی: یہ عجیب مبہم سوال پوچھا ہے آپ نے۔ تخلیق کا فن اور تخلیق کا جمالیاتی پہلو تو ہم معنی ہیں۔ یہ پوچھا کیجئے تخلیق میں موضوع اہم ہوتا ہے یا فن۔ یوں سوال بامعنی ہو سکتا ہے، جواباً عرض ہے دونوں ہمہ گر اور بامعنی ہوتے ہیں۔

آج کل تنقید صرف تبصرہ یا جائزہ نہیں ہوتی؟

احمد ندیم قاسمی:آج کل اردو تنقید (پاکستان میں) صرف تبصرے یا جائزے یا بھرپور تحسین یا بھرپور مذمت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے، اگر کچھ نقاد ہیں بھی تو گروہ بندیوں کا شکار ہیں یا پھر انہوں نے چند موضوعات چُن رکھے ہیں اور وہ ان سے اِدھر اُدھر جاتے ہی نہیں۔

ادب کی تخلیق کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ قلمکار کی اپنی ذات کی تطہیر اور تسکین، قاری کے لیے، ناموری کے لیے یا معاشرے کے لیے؟

احمد ندیم قاسمی:ادب کی تخلیق کا بنیادی مقصد حسن و خیر اور توازن و تناسب کا پرچار ہے۔ ادیب… سچا ادیب نہ قاری کے لیے لکھتا ہے نہ ناموری کے لیے … وہ انسانیت کو سنوارنے کے لیے لکھتا ہے اور اپنی شخصیت کا اظہار بھی کرتا ہے۔

تخلیق اور تخلیق نگار کا ایک ہونا ضروری ہے یا کوئی اور صورت بھی ہو سکتی ہے؟

احمد ندیم قاسمی: میں آپ کا یہ عالمانہ سوال سمجھ ہی نہیں پایا؟

تخلیقات کے حساب سے بڑے بڑے ادباء اپنی عملی زندگی میں اپنی تخلیقات سے مختلف کیوں ہوتے ہیں؟

احمد ندیم قاسمی: یہ سوال تو ان ’بڑے بڑے ادباء‘ سے پوچھئے جو اپنی عملی زندگی میں اپنی تخلیقات سے مختلف ہوتے ہیں۔ میں ان ’بڑوں‘ میں شامل نہیں ہوں چنانچہ میرے ادب اور میری عملی زندگی کے درمیان کوئی تفاوت نہیں ہے۔

ترقی پسند تحریک اپنے مقاصد کہاں تک حاصل کر پائی؟

احمد ندیم قاسمی: ترقی پسند تحریک کے مقاصد‘ صد فیصد پورے ہوئے ہیں، ترقی پسندی کی تنظیم موجود نہیں ہے لیکن ترقی پسندی کی تحریک تو میدان پر میدان مار رہی ہے۔ آج شاعری اور نثر میں جو کچھ تخلیق ہو رہا ہے اس میں ترقی پسند تحریک کے مقاصد کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ شاعری میں ترقی پسند شعراء ہی کی لفظیات مروج ہیں اور نثر میں بھی اس تحریک کے جلوے صاف نظر آتے ہیں۔ علامت اور تجرید کے زیر اثر لکھنے والے بھی ترقی پسند ادب کے مقاصد کو نظر انداز نہیں کر پاتے اور وہ اہل قلم جو کہتے ہیں کہ وہ مقصد نگاری کی نفی کرتے ہیں، ان کی بے مقصدیت بھی ایک مقصد ہی تو ہے مگر بے مقصد زندگی بسر کرنا جہالت پھیلانے کے مترادف ہے۔

کہتے ہیں انجمن ترقی پسند کا بوریا بستر آپ نے گول کیا؟

احمد ندیم قاسمی:کس بدقسمت نے آپ تک یہ بہتان پہنچایا کہ ترقی پسند ادب یا انجمن ترقی پسند مصنفین کا ’بوریا بستر‘ میں نے گول کیا۔ میں ہی تو ایک ترقی پسند ہوں جو تنظیم ختم ہو جانے کے بعد بھی ترقی پسندی پر پے در پے حملوں کا مقابلہ کرتا رہا اور آج تک کر رہا ہوں۔ بڑے بڑے ترقی پسند (شاید مارے خوف کے، یا مارے غرور کے) منقار زیر پر رہے مگر جس نے بھی ترقی پسند ادب کے خلاف کچھ لکھا، میں نے ہی اس کا منہ توڑ جواب دیا۔ یہ جو قدامت پسندوں کا ایک لشکر آج تک میرے پیچھے پڑا ہوا ہے تو اس کا واحد سبب یہ ہے کہ تنظیم کے منتشر ہو جانے کے بعد بھی میں نے ترقی پسند ادب کے پاکیزہ مقاصد کا دفاع کیا اور اب تک کر رہا ہوں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کو ختم کرنے والے ایک سے زیادہ عناصر ہیں۔ سب سے پہلے خود بعض ترقی پسندوں کی انتہا پسندی ہے جس نے تنظیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یہ بیشتر کمیونسٹ حضرات تھے اور ان کی سربراہی میرے محترم دوست سید سبط حسن کر رہے تھے۔ ان لوگوں کی گفتگو سے یوں معلوم ہوتا تھا انقلاب بس درہ خیبر تک پہنچ چکا ہے اور پاکستان میں اب داخل ہوا کہ ہوا۔ انہوں نے ’غیر ترقی پسند‘ اہل قلم کے بائیکاٹ کی قرار داد مرتب کی۔ یہ سراسر زیادتی بلکہ عاقبت نااندیشی تھی۔ میں نے انجمن کا جنرل سیکریٹری ہونے کے باوجود اس قرارداد کی مخالفت کی اور صرف ابراہیم جلیس نے میرا بھرپور ساتھ دیا مگر اہل قلم کی غالب اکثریت اس لایعنی قرارداد کے حق میں تھی اور ابراہیم جلیس اور میں نے محض جماعتی اتحاد برقرار رکھنے کے لیے ان لوگوں کا ساتھ دیا۔

احمد ندیم قاسمی اپنی 80ویں سالگرہ کا کیک کاٹ رہے ہیں۔ تصویر بشکریہ منصورہ احمد

ہمارا کہنا یہ تھا اول تو کوئی بھی ادبی رسالہ ترقی پسندوں کی ملکیت نہیں ہے چنانچہ اس قرارداد پر عمل ان رسالوں کے مالکوں کی صوابدید کا محتاج ہوگا مگر وہ رفقائے کرام تو پہلے سے طے کر کے آئے تھے اور زیر زمین سید سجاد ظہیر سے بھی تائید حاصل کر چکے تھے اس لیے متذکرہ قرارداد نومبر 1949ء کی کل پاکستان انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں منظور ہوگئی۔ اس کانفرنس کے صدر صاحبان میں فیض احمد فیض بھی شامل تھے جنہوں نے جلسہ عام میں اس قرارداد کے پیش ہونے پر کوئی احتجاج نہ فرمایا۔ صرف لاہور کے رسالہ ’سویرا‘ کے چوہدری نذیر احمد اور کراچی کے رسالہ ’افکار‘ کے صہبا لکھنوی نے انجمن کا ساتھ دیا۔

میں رسالہ ’نقوش‘ کا بانی ایڈیٹر تھا مگر مالک نہ تھا اس لیے اس قرارداد نے مجھ سے رسالہ نقوش بھی چھین لیا۔ ملک کے پڑھے لکھے طبقے نے اس قرارداد کے خلاف (اور نتیجتاً انجمن کی تنظیم کے خلاف) ہنگامہ برپا کردیا۔ میرے نہایت پیارے دوست بلکہ میرے جان و جگر سعادت حسن منٹو کو بھی ان اہل قلم میں شامل کر دیا گیا تھا جن کا بائیکاٹ ترقی پسند رسالوں پر فرض تھا۔ منٹو مجھ سے جائز طور پر خفا ہوئے اور محمد حسن عسکری کی رفاقت میں ایک رسالہ نکالا جس کا ایک اہم مضمون یوسف ظفر کا لکھا ہوا تھا اور جس میں میری کھال اتاری گئی تھی۔ یہ منٹو کا قطعی جائز ردعمل تھا مگر جب میں نے 1950ء میں علیٰ الاعلان یہ قرارداد واپس لے لی اور پھر 1952ء کی کل پاکستان ترقی پسند مصنفین کانفرنس منعقدہ کراچی میں بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کی صدارت میں منعقد ہ اجلاس میں یہ قرارداد واپس لے لی (اور اس پر بابائے اردو نے بے حد مسرت اور تحسین کااظہار فرمایا) تو منٹو کے ساتھ میرے تعلقات بحال ہوگئے تھے۔

میں وہ دن نہیں بھولتا جب منٹو اپنا پہلا پنجابی میں لکھا ہوا افسانہ میرے پاس لائے۔ تب میں روزنامہ ’امروز‘ کا ایڈیٹر تھا۔ میں نے وعدہ کیا یہ افسانہ ’امروز‘ کے پنجابی صفحے پر ضرور چھپے گا مگر چند روز بعد پولیس نے دفتر امروز پر چھاپہ مارا اور ایڈیٹر کی میز کی درازیں بھی خالی کر گئی۔ میں نے باقاعدہ درخواستیں دے کر پولیس افسروں سے عرض کیا منٹو کا وہ افسانہ تو واپس کر دیجئے مگر میری کسی نے نہ سنی۔ میرے پیارے منٹو کی یہ کہانی بھی غائب ہو گئی اور چند ہفتے بعد خود منٹو بھی رخصت ہوگئے۔

انجمن ترقی پسند منصفین کی تنظیم کا بستر گول کرنے میں دوسرا کردار نوابزادہ لیاقت علی خان کی حکومت نے ادا کیا۔ اعلان ہوا انجمن ترقی پسند مصنفین دراصل ایک سیاسی جماعت ہے اس لیے حکومت سے متعلق لوگ اس انجمن کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے گریز کریں ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی چنانچہ انجمن کے ہفتہ وار اجلاسوں میں حاضری بقدر نصف کم ہوگئی۔ لاہور میں تو ہفت روزہ جلسہ منعقد کرنے کی کوئی جگہ ہی نہیں ملتی تھی۔ ہم اپنا ’بوریا بستر‘ اٹھائے جہاں جاتے تھے، خفیہ پولیس ہمارے ہمدردوں کو بری طرح دھمکا چکی ہوتی تھی۔ اب لوگ ڈر کے مارے انجمن کے ہفتہ وار جلسوں میں شرکت سے گریز کرنے لگے۔

دائیں سے بائیں۔ منصورہ احمد، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز۔ تصویر بشکریہ : منصورہ احمد

اس پر مستزاد ستم یہ ہوا مارچ 1951ء میں ’راولپنڈی سازش کیس‘ کا آغاز ہوا۔ فیض احمد فیض پہلے ہی ہلے میں گرفتار کر لیے گئے۔ فیض صاحب ویسے بھی انجمن کی سرگرمیوں میں واجبی سا حصہ لیتے تھے۔ صرف نومبر 1949ء کی کانفرنس کے ’پریذیڈیم‘ (مجلس عاملہ) میں انہوں نے شمولیت فرمائی (پریذیڈم فیض، ممتاز حسین، ریاض درانی، فارغ بخاری اور احمد ندیم قاسمی پر مشتمل ہوتا تھا) 1951ء میں حکومت نے ’بائیں بازو‘ کے سب اہل قلم پر چھاپہ مارا اور لاہور، کراچی، پشاور، ڈھاکا، چٹاگانگ اور سید پور وغیرہ کے نمایاں اہل قلم کو جیلوں میں نظر بند کردیا۔

لاہور کے ان نظربند اہل قلم میں میرے علاوہ ظہیر کاشمیری، حمیداختر، سبط حسن اور حسن عابدی شامل تھے۔ جب میں نومبر 1951ء میں رہا ہو کر آیا تو انجمن کے جلسوں میں شمولیت کا خوف ملک گیر ہوچکا تھا۔ راولپنڈی سازش کیس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ تنظیم کی حالت دگر گوں ہونے لگی، میں نے جولائی 1952ء میں کل پاکستان ترقی پسند مصنفین کانفرنس برپا کی اور مروجہ صورت حال کا پردہ چاک کیا مگر اس کے بعد 1952ء میں اور پھر پورے 1953ء میں ملک بھر میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے ہفتہ وار جلسے کا انعقاد ختم ہوگیا۔

میں نے تمام برانچوں کو لکھا اور تاکیداً عرض کیا یہ ابتلا عارضی ہے اس لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیے مگر کوئی بھی برانچ میرے مشورے پر عمل نہ کر پائی۔ شاید مشرقی پاکستان کے کسی ایک آدھ شہر میں کوئی اجلاس ہو جاتا ہو تو الگ بات ہے۔ جب 1954ء میں، میں نے دیکھا میں ایک ایسی تنظیم کا جنرل سیکریٹری بنا بیٹھا ہوں جس کی سرگرمیاں صفر ہو چکی ہیں تو میں جنرل سیکریٹری شپ سے اس اعلان کے ساتھ مستعفی ہوگیا کہ ہم سے تنظیم سنبھل نہیں پا رہی اس لیے کوئی صاحب آگے آئیں اور تنظیم کو سنبھالیں۔ میں ایک رضاکار کی طرح ان کا بھرپور ساتھ دوں گا مگر کوئی بھی آگے نہ آیا۔ ’بڑے بڑے‘ بھی شاید پوری طرح خوفزدہ ہو چکے تھے۔

احمد ندیم قاسمی اپنی 89ویں (آخری) سالگرہ کے موقع پر۔ تصویر بشکریہ منصورہ احمد

میرے اس طویل بیان سے خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی تنظیم کا بوریا بستر میں نے گول کیا یا اس ’گولائی‘ میں نوابزادہ لیاقت علی خان کی حکومت، انجمن کے کمیونسٹ ارکان کی اندھا دھند انتہا پسندی، راولپنڈی سازش کیس اور ترقی پسند اہل قلم کی نظر بندیاں شامل ہیں۔

ادب زبان کی کس طرح خدمت انجام دیتا ہے؟

احمد ندیم قاسمی: ادب ایک ایک لفظ کی گہرائیوں میں جا کر زبان کی تہذیب کرتا ہے اور ایک ایک لفظ میں سے نئے نئے مفہوم نکالتا ہے اور یہ ادب زبان کو وسعتیں عطا کرتا ہے۔

ادب زوال پذیر ہے یا ادبی رجحانات پر نمائشی اثرات کی گرد نے انہیں پس پشت ڈال رکھا ہے؟

احمد ندیم قاسمی: آپ کو کس نے بتایا ہے ادب زوال پذیر ہے؟ یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی ادب تو ماشاء اللہ مسلسل ترقی پذیر ہے۔ سچے اور کھرے ادبی رجحانات پر نمائشی اثرات کی گرد پڑ ہی نہیں سکتی۔

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا دور ہے، فن کی ترویج کے لیے اس کا سہارا ضروری ہے؟

احمد ندیم قاسمی: فن کی ترویج کے لیے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ حد درجہ مفید اور نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں بشرطیکہ میڈیا والے نفاستِ ذوق سے محروم نہ ہوں جیسا کہ عموماً آج کل ہیں۔

اخبارات کے ادبی ایڈیشنز اور ادبی رسالوں کے کردار کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

احمد ندیم قاسمی: ادب کے حوالے سے معیاری ادبی رسالوں کا کردار تو سراسر مثبت ہے۔ یہی رسائل ادب کی رگوں میں خون تازہ جاری کرنے کا موجب ہیں البتہ اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں کو ادبی رسائل سے مختلف قرار دیجئے کیونکہ بعض اخبارات یہ ایڈیشن سراسر بے معنی اور خوشامدانہ انداز کے ہوتے ہیں البتہ اکا دُکا اخبارات کے ایڈیشن، ادبی سرگرمیوں کی آئینہ داری میں مفید ہیں۔

گزشتہ صدی میں اردو ادب کی کونسی صنف نے زیادہ ترقی کی؟

احمد ندیم قاسمی: میرے خیال کے مطابق گزشتہ صدی میں مختصر افسانے اور شاعری نے حیرت انگیز ترقی کی۔ تحقیق و تنقید کا معاملہ کمزور رہا مگر تخلیقی ادب نے تو دھوم مچائے رکھی۔

اردو کا بہترین افسانہ نگار کون ہے اور اردو کے 5 بہترین افسانے کون سے ہیں؟

احمد ندیم قاسمی: کسی ایک کو بہترین افسانہ نگار قرار دے کر دوسرے اتنے ہی اچھے افسانہ نگاروں کی حق تلفی میرے ادبی دین میں کفر کے مترادف ہے۔ پھر جب میں اپنے ہی افسانوں کے عنوان تک بھول جاتا ہوں تو اردو کے 5 بہترین افسانوں کو کیسے نامزد کروں جبکہ میرے نزدیک اردو زبان میں بہترین افسانوں کی تعداد 50 سے کسی طرح کم نہیں۔

ادبی قبولیت سست روی سے ہوتی ہے، ایسا کیوں ہے؟

احمد ندیم قاسمی: ادبی قبولیت یا مقبولیت کی رفتار یقیناً سست ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے کسی بھی تخلیق کار کا ابتدا ہی میں مقبول ہو جانا اس کے مستقبل کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔

عالمی ادب پر آپ کی گہری نظر ہے، آپ کو کس زبان کے ادب نے زیادہ متاثر کیا؟

احمد ندیم قاسمی: بحیثیت مجموعی مجھے روسی زبان کے ناولوں اور افسانوں نے متاثر کیا ہے مگر شاعری کا معاملہ مختلف ہے۔ اس ضمن میں مجھے انگریزی زبان کی شاعری متاثر کن لگی۔ وہ انگلستان کی شاعری ہو یا امریکا کی یا آسٹریلیا کی۔

بعض حلقے اقبال کے قومی شاعر ہونے پر معترض ہیں، آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟

احمد ندیم قاسمی: اقبال کے قومی شاعر ہونے کی اگر نفی کی جائے تو قومی لحاظ سے ہمارے پاس کیا بچے گا؟ اقبال یقیناً اسلامی شاعر ہیں مگر پاکستان بھی تو اسلام کا گڑھ ہے چنانچہ اقبال ہی پاکستان کے قومی شاعر ہیں۔ کسی دوسرے شاعر کی مجال نہیں اسے اقبال سے آگے کا یا برابری کا درجہ دیا جائے۔

اقبال اور مجید امجد کے بعد زیادہ اہم شاعر آپ کی نظر میں کون ہے؟

احمد ندیم قاسمی: اقبال کے ساتھ ہی آپ نے مجید امجد کو کیسے شامل کر لیا؟ آپ کو جوش ملیح آبادی کیوں بھول گئے جو ہر لحاظ سے بڑے شاعر ہیں۔ پھر ن م راشد ہیں جن کی شاعری کے آفاق میں اتنا پھیلاؤ ہے کہ فیض بھی اس پھیلاؤ کے سامنے محدود Vision کے شاعر محسوس ہوتے ہیں۔ مجید امجد اچھے شاعر تھے مگر زندگی کے آخری برسوں میں جو کچھ سوچتے تھے (اور یہ نہایت ہمہ گیر سوچ تھی) اسے فن کا جامہ نہ پہنا سکے چنانچہ ان کی یہ شاعری شاعرانہ Note لگتی ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے یقینا نہایت جیتی جاگتی شاعری کی مگر انہیں اقبال کے قریب نہ لے جایئے یہ سراسر غلط اقدام ہوگا۔

کہتے ہیں 1947ء کے بعد غزل پر سب سے زیادہ اثر ناصرکاظمی کا ہے؟

احمد ندیم قاسمی: 1947ء کے بعد غزل پر سب سے زیادہ اثر فراق گورکھپوری کا ہے اور ناصر کاظمی، فراق ہی کے خوشہ چین تھے۔ پھر ناصر کے دور میں اطہر نفیس بھی موجود ہیں، شکیب جلالی بھی ہیں، احمد مشتاق بھی ہیں، رضی اختر شوق تک ہیں۔ ناصر کاظمی اس گروہ کے ایک مقبول شاعر تھے مگر ان کے اثرات اتنے ہمہ گیر نہیں ہیں۔

بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو کے پاس کوئی لیجنڈ (Legend) نہیں؟

احمد ندیم قاسمی: کیوں صاحب، اردو کے پاس کوئی لیجنڈ کیوں نہیں ہے؟ کیا میر کے 6 دیوان لیجنڈ کی بنیاد نہیں ہیں؟ کیا مرزا غالب کی اردو شاعری نے پوری ڈیڑھ صدی وہ حکمرانی نہیں کی جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اگر میر اور غالب لیجنڈ نہیں ہیں تو آپ کو لیجنڈ کے معانی بدلنا ہوں گے۔

ادب کی تشکیل میں کارفرما چند اہم عناصر پر روشنی ڈالیں؟

احمد ندیم قاسمی: ادب کی تشکیل میں کارفرما عناصر کے بیان کے لیے مجھے کم سے کم 100 صفحات کی ضرورت ہے۔ آپ نے یہ سوال یوں پوچھا ہے جیسے میں ان عناصر کا شمار ایک دو تین چار کی طرح کردوں گا۔

آپ نے ایک انٹرویو میں فرمایا تھا آپ کا پینوراما فیض سے بڑا ہے، اس کی کچھ وضاحت فرمائیں گے؟

احمد ندیم قاسمی: میری شاعری کا پینوراما میرے زعم میں غیرمحدود اور آفاق در آفاق ہے۔ آپ صاف اور غیر متعصب ذہن کے ساتھ میری شاعری کا مطالعہ فرمائیں گے تو آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔

ساختیات، پس ساختیات اور مابعد جدیدیت جیسے تصورات پر کچھ روشنی ڈالیں؟

احمد ندیم قاسمی: جب میں ساختیات اور پس ساختیات اور مابعد جدیدیت کی پینترہ بازی کو تسلیم ہی نہیں کرتا تو ان پر روشنی کیا ڈالوں۔

کیا ادب تہذیب کے تابع ہے، اس بارے کچھ فرمائیں؟

احمد ندیم قاسمی: یقیناً ادب اس ملک یا قوم کی تہذیب کا آئینہ دار ہوتا ہے جس میں وہ تخلیق پاتا ہے مگر وہ اس تہذیب کے تابع نہیں رہتا بلکہ اس تہذیب میں مثبت اضافے کرتا چلا جاتا ہے، یوں تہذیب اس کے تابع رہتی ہے۔

آپ کی اولاد میں سے کوئی میدانِ ادب میں قدم رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے؟

احمد ندیم قاسمی: جی ہاں، میری بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی شاعری بھی کرتی ہیں اور تحقیق و تنقید سے بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔ میری 2 اور بیٹیاں بظاہر منہ بولی بیٹیاں ہیں مگر مجھے سگی بیٹیوں کی طرح عزیز ہیں۔ ان کے نام پروین شاکر اور منصورہ احمد ہیں، ان دونوں بیٹیوں نے مثالی شاعری کی ہے، میں نے اپنے ایک مجموعہ کلام کے انتساب میں جہاں اپنی بیوی، بیٹے اور بیٹیوں کا ذکر کیا ہے وہاں یہ بھی کہا ہے:
میری دو اور بیٹیاں ہیں جنہیں
منتخب میرے قلب و جاں نے کیا
میری اولاد کی طرح میری
ایک پروین، ایک منصورہ

آپ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار اور کالم نگار بھی ہیں، آپ کو کون سی صنف میں طبع آزمائی پسند ہے؟

احمد ندیم قاسمی: شاعری فنون لطیفہ کی ملکہ ہے، افسانہ نگاری اس کے بعد آتی ہے اور کالم نویسی کا ادب سے واجبی تعلق ہوتا ہے، یہ تو ایک ذریعہ معاش ہے اور بس۔

زندگی کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟

احمد ندیم قاسمی: زندگی کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کرنے کے لیے بھی مجھے بہت سا وقت اور بہت سے صفحات درکار ہوں گے۔ مختصراً صرف اتنا کہوں گا زندگی کا صحیح استعمال یہ ہے کہ انسانی برادری کے حوالے سے بہتر سے بہتر زندگی کے لیے کوشاں رہے۔ ایک ایسی زندگی جس میں حسن ہو، خیر ہو، توازن ہو، تناسب ہو، کوئی کسی کا محتاج نہ ہو، کوئی کسی پر حکمران نہ ہو، امن ہو، چین ہو اور چاروں طرف ہر لمحہ نغمے کی سی فضا میں گھلی رہے۔

جدید نظم کے مستقبل کو آپ کیسے دیکھتے ہیں اور برصغیر میں نامور نظم نگار کون ہیں؟

احمد ندیم قاسمی: جدید نظم کا مستقبل تابندہ اور رخشندہ ہے۔ جب آفتاب اقبال شمیم کے سے شاعر بھرپور شاعری تخلیق کرنے میں مصروف ہوں اور جب پروین اور منصورہ نظم لکھ رہی ہوں اور ان کے ساتھ فہمیدہ ریاض اور فاطمہ حسن کی آواز بھی شامل ہو تو جدید نظم کی تابندگی پر کیسے شبہ ہوگا۔
منیر نیازی کے سے نمائشی اور بالشتئے نظم نگاروں کو جدید نظم نگار نہیں کہنا چاہئے یہ لوگ تو سیدھا مصرع کہنے کی بھی توفیق نہیں رکھتے۔ آپ نے اس سوال میں پاکستان کے بجائے ’برصغیر‘ کا ذکر کیا ہے تو برصغیر میں زبیر رضوی اور بلراج کومل ایسے نظم نگار بھی موجود ہیں جو نظم کی آبرو ہیں۔

پاکستان کا بہترین ادبی مجلہ کون سا ہے؟ فنون اور اوراق کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

احمد ندیم قاسمی: میں ’فنون‘ کا ایڈیٹر ہوں اور اس کی ترتیب پر بہت محنت کرتا ہوں۔ میں اسی کو ملک کا بہترین ادبی مجلہ قرار دوں گا مگر اس کے علاوہ ’معاصر‘ بھی ہے، کراچی کا مجلہ ’بادبان‘ بھی ہے، وہیں کا ماہنامہ ’افکار‘ بھی ہے۔ رہا ’اوراق‘ تو میں اس کے بارے میں اظہار رائے کر کے بھڑوں کے چھتے کو نہیں چھیڑنا چاہتا۔ ان بھڑوں نے مجھے بہت کاٹا ہے۔

خواتین شعراء میں پہلی تین پوزیشنز کن کے پاس ہیں؟

احمد ندیم قاسمی: اس طرح کی زیادتی کے سوال نہ پوچھا کیجئے۔ پہلی تین شاعرات کو نامزد کردوں تو باقی تین بھی تو اسی پائے کی ہیں۔ یہ ’بہترین‘ وغیرہ کا چکر روک لیجئے۔

احمدفراز اور افتخار عارف میں سے کس کا شاعرانہ کینوس وسیع ہے، یا ان میں بڑا شاعر کون ہے؟

احمد ندیم قاسمی: احمد فراز کے سامنے افتخار عارف کو لانا سراسر بے انصافی ہے۔ افتخار عارف معقول غزل گو ہیں مگر انہیں احمد فراز کے سے بڑے شاعر کے مقابلے میں لانا شدید زیادتی ہے۔ آخر افتخار عارف کی شاعری کی عمر ہی کیا ہے اور احمدفراز تو پچھلی نصف صدی سے شعر کہہ رہے ہیں اور ان کی تخلیق کا مرتبہ بہت بلند ہے۔

احمد فراز کی عمر کو جواز بناکر انہیں نیشنل بک فائونڈیشن کے عہدے سے ہٹایا گیا، اکادمی ادبیات کے چیئرمین افتخار عارف بھی 64 برس کے ہیں لیکن انہیں ایکسٹینشن دیدی گئی، کیا ادب میں بھی سیاست در آئی ہے؟

احمد ندیم قاسمی: اس سوال کا جواب اگر آپ احمد فراز کو برطرف کرنے والے بزرجمہروں سے پوچھتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ فراز کے سے بڑے شاعر کی برطرفی پر میں واحد شاعر ہوں جس نے شدید احتجاج کیا ہے۔ رہے افتخار عارف تو ان کی ایکسٹینشن کے بارے میں وزیر تعلیم (مرکزی) ہی بہتر جانتا ہوگا۔

احمد ندیم قاسمی کی نظم ’پتھر‘ نے خاصی شہرت پائی، نذرِ قارئین ہے:

ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں
میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیب سفید
اس کے مرمر میں سیہ خون جھلک جاتا ہے
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشۂ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنی اقدار ہیں اس دور کی سب پتھر ہیں
سبزہ و گل بھی ہوا اور فضا بھی پتھر
میرا الہام ترا ذہن رسا بھی پتھر
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں ترے میری زباں پتھر ہے
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار

احمد ندیم قاسمی کی یادگار تصویر۔ بشکریہ: منصورہ احمد

وطن کے لیے قاسمی صاحب کے اس کلام نے خاصی قبولیت پائی:

ﺧﺪﺍ ﮐﺮﮮ ﮐﮧ ﻣﺮﯼ ﺍﺭﺽ ﭘﺎﮎ ﭘﺮ ﺍﺗﺮﮮ

ﻭﮦ ﻓﺼﻞِ ﮔﻞ ﺟﺴﮯ ﺍﻧﺪﯾﺸۂ ﺯﻭﺍﻝ ﻧﮧ ﮨﻮ

ﯾﮩﺎﮞ ﺟﻮ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻠﮯ ﻭﮦ ﮐِﮭﻼ ﺭﮨﮯ ﺑﺮﺳﻮﮞ

ﯾﮩﺎﮞ ﺧﺰﺍﮞ ﮐﻮ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﺎﻝ ﻧﮧ ﮨﻮ

ﯾﮩﺎﮞ ﺟﻮ ﺳﺒﺰﮦ ﺍُﮔﮯ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺒﺰ ﺭﮨﮯ

ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﺳﺒﺰ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﻧﮧ ﮨﻮ

ﮔﮭﻨﯽ ﮔﮭﭩﺎﺋﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺭﺷﯿﮟ ﺑﺮﺳﺎﺋﯿﮟ

ﮐﮧ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﺋﯿﺪﮔﯽ ﻣﺤﺎﻝ ﻧﮧ ﮨﻮ

ﺧﺪﺍ ﮐﺮﮮ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﻢ ﺳﺮِ ﻭﻗﺎﺭِ ﻭﻃﻦ

ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺴﻦ ﮐﻮ ﺗﺸﻮﯾﺶِ ﻣﺎﮦ ﻭ ﺳﺎﻝ ﻧﮧ ﮨﻮ

ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺩ ﮨﻮ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭ ﻓﻦ ﮐﺎ ﺍﻭﺝِ ﮐﻤﺎﻝ

ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻠﻮﻝ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺴﺘﮧ ﺣﺎﻝ ﻧﮧ ﮨﻮ

ﺧﺪﺍ ﮐﺮﮮ ﮐﮧ ﻣﺮﮮ ﺍﮎ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻭﻃﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ

ﺣﯿﺎﺕ ﺟﺮﻡ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻭﺑﺎﻝ ﻧﮧ ﮨﻮ

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp