سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے جنوبی پنجاب اور ہزارہ ریجن کے 2 صوبوں کے قیام کے معاملے پر غور شروع کر دیا گیا۔
قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ صوبوں کے قیام کے لیے کافی اور اہم جواز موجود ہیں۔
چیئرمین نے نشاندہی کی کہ لاہور اور پشاور سے آگے کے علاقوں میں ناقص گورننس اور معاشی ترقی کا فقدان ہے اور یہ فاصلہ لوگوں کے لیے روزمرہ مواصلات کے مسائل بھی پیدا کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کے قیام سے صوبوں کی معاشی اور سیاسی پسماندگی کو بھی دور کیا جاسکے گا جب کہ جیسے جیسے چھوٹے صوبوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا وفاق مضبوط ہوتا جائے گا۔
سید علی ظفر نے کہا کہ نئے صوبوں کے قیام پر غور محض نسلی اور لسانی بلکہ انتظامی خطوط اور آبادی کی بنیادوں پر بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان سب پر غور کرتے ہوئے کمیٹی کو اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کیا پاکستان آج کے سخت معاشی حالات میں موجودہ وسائل کے ساتھ نئے صوبے تشکیل دینے کے قابل ہے اور دوسرا یہ کہ کیا تجویز کردہ صوبے معاشی طور پر قابل عمل اکائیاں ہوں گی۔
چیئرمین نے بتایا کہ نئے صوبوں کے قیام کے نتیجے میں علیحدہ کابینہ، گورنرز، اسمبلیاں، ہائی کورٹس اور عدالتیں، وزارتیں اور محکمے ہوں گے، فیڈرل سروس میں نئے صوبوں کا کوٹہ پورا کرنا ہوگا اور علیحدہ نئے صوبائی کیڈرز بنانے ہوں گے جس کا اثر سینیٹ پر بھی پڑے گا کیوں کہ مثال کے طور پر اگر پنجاب کو 2 صوبوں میں تقسیم کیا گیا تو اس سے سینیٹ میں پنجاب کی تعداد میں اضافہ ہوگا جو شاید دوسرے صوبوں کو قابل قبول نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی کو مطمئن کرنا ہوگا کہ وسائل کی تقسیم کیسے ہوگی، این ایف سی ایوارڈ پر کس طرح نظر ثانی کی جائے گی اور نہروں کی تقسیم سے متعلق معاملات بھی طے کرنے ہوں گے۔
کمیٹی نے اس معاملے پر تفصیلی بحث کی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ پاکستان میں صرف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں میں بھی مزید صوبے بنانے کی ضرورت ہے تاہم اس کے لیے چیئرمین کی جانب سے اٹھائے گئے تمام سوالات کے جوابات دینے کی ضرورت ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کی پارٹی قیادت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو سننا ہوگا اور کوئی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔
یہ محسوس کیا گیا کہ پنجاب اور کے پی کے کی 2 اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں اور قومی اسمبلی جولائی اگست 2023 میں تحلیل ہونے جا رہی ہے اس لیے یہ مناسب وقت نہیں ہوگا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لایا جا سکے۔ اس کے باوجود یہ بھی محسوس کیا گیا کہ کمیٹی کو پارٹی سربراہان/ نمائندوں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ان کے نقطہ نظر کے لیے بلا کر اس معاملے پر اپنا کام شروع کرنا چاہیے۔
سینیٹرز وزارت قانون کی جانب سے نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے متعلقہ وزارتوں کی رپورٹس فراہم نہ کرنے پر ناخوش تھے اور چیئرمین نے 2 ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔