پاکستانی قوم اس قدر زخم خوردہ ہے کہ اس پر کسی قسم کی اچھی خبر اثر ہی نہیں کررہی ورنہ عید الاضحیٰ کے بعد کچھ ایسی پیش رفت ہوئی ہے، دل کو کچھ ڈھارس بندھی ہے کہ اب پاکستان اور اس سے اردگرد کے خطے میں کچھ اچھا ہونے جا رہا ہے۔
یہ بات کسی پاکستانی کے سامنے کہی جائے تو وہ یقین کرنے کو تیار ہی نہیں۔ وہ بے چارہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اس کے ساتھ گزشتہ پون صدی میں بہت برا ہوا ہے۔ ایک کے بعد ایک دھوکا، نہایت خوش نما وعدے اور ہر وعدے کے آخر میں ایک بڑا گھناؤنا دھوکا۔
یہ ‘پون’ صدی کا قصہ ہے دو، چار برس کی بات نہیں
دو ہزار سترہ میں پاکستانی رائے عامہ کا ایک جائزہ لیا گیا، جس میں ان لوگوں سے ایک سوال پوچھا گیا جو عام انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالنا چاہتے۔ یہ سروے گیلپ پاکستان اور پلس کنسلٹنٹ کے زیر اہتمام ہوا تھا۔ سوال یہ تھا کہ آخر وہ کیوں ووٹ نہیں ڈالنا چاہتے؟ 37 فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ انھیں سیاست دانوں پر اعتماد نہیں ہے۔ سات فیصد کا کہنا تھا کہ سیاست دان کرپٹ ہوتے ہیں، اس لیے ووٹ ڈالنے کے لیے خوار ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہی سوال ایک دوسرے موقع پر ایک مختلف انداز میں کیا گیا کہ پاکستانی کس ادارے پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں؟ ایک سروے میں صرف 26 فیصد نے سیاست دانوں پر اعتماد کیا اور دوسرے میں 22 فیصد نے۔
رائے عامہ کے ان جائزوں کے بعد چھ برس بیت چکے ہیں۔ ان چھ برسوں کے دوران میں تبدیلی اور مابعد تبدیلی پاکستانی قوم کے ساتھ جس قدر بڑا دھوکا ہوا، اس کے بعد یہ اعتماد بحیثیت مجموعی بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، اس سے دس روز پہلے جاری ہونے والی ایک جائزہ رپورٹ میں ہر پانچ میں سے چار پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملک غلط سمت میں جارہا ہے۔ یہ اس ملک سے مایوسی کا وہ اظہاریہ ہے جو گزشتہ پون صدی کا بالعموم اور پچھلے پانچ برسوں کا بالخصوص حاصل ہے۔
اس قدر زخم خوردہ اور مایوس قوم پر ایک ہزار خوشخبریاں بھی کچھ اثر مرتب نہیں کرتیں۔ چاہے انھیں ‘مایوسی کفر ہے’ کے بار بار درس دیتے رہیں۔ ورنہ اچھی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان سے بھی ہے اور اس پورے خطے سے بھی ہے جس میں پاکستان ایک نیوکلیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ سب سے پہلے پاکستان سے متعلق خبریں۔
پاکستان جس بدترین معاشی بحران میں پھنسا، اس سے نکلنے کا ایک آسان سا حل عمران خان اور شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی صورت ڈھونڈا۔ پاکستان کے ہر حکمران نے ٓئی ایم ایف سے سٹیرائیڈز لیے، ہاں ! جب مخالف پارٹی حکمران بنی، اس نے یہی سٹیرائیڈز استعمال کیے تو اس پر نہ صرف کڑی تنقید کی بلکہ اسے ٓئی ایم ایف کا غلام ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ چلن کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
جناب عمران خان نے قوم کو یقین دلایا کہ اب تک پاکستانی حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے قرضے لے کر ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچایا، جب وہ برسراقتدار آئیں گے تو آئی ایم ایف کے ہاں نہیں جائیں گے، اس کے بجائے وہ خودکشی کرلیں گے۔ اور پھر قوم نے دیکھا کہ وہ بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتے رہے۔ پہلے آئی ایم ایف نے انھیں لفٹ نہیں کرائی، بعدازاں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی اثنا میں جناب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی۔
تحریک انصاف کے دور میں شروع ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھایا مسلم لیگ ن کے جناب شہباز شریف نے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر آئی ایم ایف ہی کی تمام تر شرائط مانتے ہوئے سٹیرائیڈز پر مشتمل کچھ گولیاں لینے میں کامیاب ہوگئے۔ آج کل وہ ایک طرف ان سٹیرائیڈز کے نقصانات گنواتے ہیں اور دوسری طرف سٹیرائیڈز حاصل کرنے کی کامیابی پر خوب اتراتے بھی ہیں۔ تاہم اس ‘دوا’ کے حاصل ہونے پر، پاکستانی قوم کا چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے عاری نظر آ رہا ہے۔ انھیں یقین ہے کہ اس ‘ دوا’ سے ان کی صحت پر برے اثرات ہی پڑیں گے۔
پاکستانی قوم آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کے زرعی منصوبہ کا سن کے بھی بہت زیادہ پرامید نظر نہیں آ رہی حالانکہ یہ زرعی منصوبہ چین اور سعودی عرب کے تعاون سے شروع ہو رہا ہے۔ اور ایک زرعی انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے تحت ملک بھر کے زرعی رقبے کی جدید ترین انداز میں مانیٹرنگ ہوگی، کاشت کاری میں نئی زرعی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے گا۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے نہ صرف ہر کسان کو جدید ترین سہولیات پہنچائی جائیں گی بلکہ تھر اور چولستان کے صحراؤں سمیت 25 لاکھ ایکڑ نئی زمین کو جدید طریقے سے قابل کاشت بنایا جائے گا۔ چین، سعودی عرب سمیت متعدد ممالک اس منصوبے میں سرمایہ کاری کریں گے۔
پاکستان کے اردگرد خطے میں بھی کچھ غیرمعمولی پیش رفت ہوئی ہے۔ مثلا افغانستان کی طالبان حکومت چین کے تعاون سے افغانستان کی تعمیر و ترقی کا سفر تیزی سے طے کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی ایک کنویں سے تیل نکالا جانے لگا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان سے نکلنے والا تیل عشروں سے تباہ حال قوم کے دلدر دور کردے گا۔
دوسری طرف چین سے افغانستان اور افغانستان سے براستہ ایران یورپ تجارتی سامان بذریعہ ٹرین جانا شروع ہوچکا ہے۔ روس سے براستہ پاکستان بھارت کوتجارتی سامان کی ترسیل بھی شروع ہوچکی ہے، بھارت بھی اپنا سامان بھی اسی راستے سے افغانستان، روس اور دیگر وسط ایشیائی ریاستوں کو سامان بھیجے گا۔
چین، پاکستان، افغانستان، روس، وسط ایشیائی ریاستوں، ایران اور سعودی عرب تک کا یہ پورا خطہ ایک دوسرے سے مربوط ہورہا ہے۔ تعمیر و ترقی کا یہ کام برسوں کے بجائے مہینوں، ہفتوں اور دنوں میں ہورہا ہے۔ اب تک کی پیش رفت جس تیز رفتاری سے ہوئی ہے، یقینا اگلی پیش رفت اس سے بھی تیز رفتار ہوگی۔
پاکستان کو اس کیک میں سے حصہ ضرور ملے گا کیونکہ وہ اس سارے خطے میں نیوکلیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور چین، سعودی عرب اس کے ضامن ہیں۔ ہاں ! یہ ایک الگ اور اہم سوال ہے کہ پاکستان کیک میں سے کتنا حصہ لینے میں کامیاب ہوتا ہے؟ اس کا انحصار پاکستانی قیادت کی سمجھ داری اور ہوشیاری پر ہے۔
سئلہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو امید نہیں ہے کہ اس کی قیادت دانش مند اور چالاک ثابت ہوسکے۔ گزشتہ پون صدی کا قصہ قوم کے سامنے ہے۔
اس لیے
کچھ علاج اس کا بھی اے’ چارہ گراں‘ ہے کہ نہیں؟