مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی حکومت آئندہ عام انتخابات انتخابی اصلاحات کے بعد کرانا چاہتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات سے قبل الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے انتخابی اصلاحات کمیٹی تشکیل دی اور اسے 10روز میں تجاویز ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔
پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کا پہلا اجلاس 6 جولائی 2023 کو ہوا اس مختصر اجلاس میں سردار ایاز صادق کو کمیٹی چیئرمین منتخب کیا گیا، بعد ازاں گزشتہ ہفتے منگل 12 جولائی سے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کے ان کیمرہ اجلاس جاری ہیں جس میں وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ، ممبر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا، وفاقی وزیر نوید قمر، سینیٹر تاج حیدر، ایم این اے افضل ڈھانڈلہ، سینیٹر منظور احمد، سینیٹر کامران مرتضیٰ اور سیکریٹری الیکشن کمیشن شرکت کر رہے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات میں دونوں ایوانوں کے ارکان، حکومتی اتحادی اور پی ٹی آئی کے سینیٹر شامل تھے تاہم پی ٹی آئی سینیٹر نے آغاز میں کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق سیاسی جماعتوں نے انتخابی اصلاحات کے لیے 70 سے زائد ترامیم پر اتفاق کرلیا ہے، وزارت قانون 2 روز میں انتخابی اصلاحات کے مسودے کو حتمی شکل دے گی جس کے بعد ترامیم کو دونوں ایوانوں میں الگ الگ پیش کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق انتخابی اصلاحات کمیٹی سے منظور ہونے والی ترامیم کو آئندہ ہفتے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرایا جائے گا۔
کمیٹی نے الیکشن ایکٹ میں کون سی ترامیم پر اتفاق کیا ہے؟
ذرائع کے مطابق کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی مشاورت سے امیدواروں کے لیے عام انتخابات میں نئے کاغذات نامزدگی اور الیکشن کوڈ آف کنڈکٹ کا مسودہ تیار کیا ہے جسے کمیٹی نے منظور کر لیا ہے۔ کمیٹی میں شامل سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے فیصلہ کیا ہے۔ پولنگ کے روز تاخیر سے آنے والے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور پریزائیڈنگ افسر کو نتائج مکمل کرنے کے لیے مخصوص وقت دیا جائے گا اور نتائج جمع کرانے میں تاخیر کرنے پر پریزائیڈنگ افسر سے جواب طلب کیا جائے گا۔ ریٹرننگ افسر اپنے ماتحت پریزائیڈنگ افسرز کو جدید مواصلاتی آلات کی فراہمی یقینی بنائے گا، پریزائیڈنگ افسر اپنے دستخط شدہ مکمل نتائج کی تصویر ریٹرننگ افسر کو وقت پر بھیجنے کا پابند ہوگا۔
پولنگ ایجنٹس کو بھی پولنگ سٹیشنز میں کیمرے والا فون ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے گی اور تمام پولنگ اسٹیشن کے تمام بوتھس پر سی سی ٹی وی کیمرہ لگایا جائے گا، جبکہ کسی بھی شکایت کی صورت میں کیمروں کی ریکارڈنگ بطور ثبوت پیش کی جاسکے گی۔ انتخابات میں حصہ لینے والا امیدوار قیمت ادا کرکے کسی بھی پولنگ اسٹیشن کی ویڈیو حاصل کرسکے گا۔
کمیٹی نے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے انتخابی اخراجات کی حد بڑھانے کی بھی تجویز دی ہے جبکہ امیدوار کو انتخابی اخراجات کی مد میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے 40 لاکھ سے ایک کروڑ روپے جب کہ صوبائی نشست کے لیے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ روپے خرچ کرنے کی اجازت ہوگی۔ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا فیصلہ 15 کے بجائے 7 روز میں کرنے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا ہے۔
کمیٹی نے دھاندلی میں ملوث انتخابی عملے کی سزا 6 ماہ سے بڑھا کر 3 سال کرنے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا ہے اور غفلت پر پریزائیڈنگ اور ریٹرننگ افسر کے خلاف فوجداری کارروائی کی تجویز دی ہے۔
کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ پولنگ عملے کی حتمی فہرست بروقت الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے اور کوئی بھی امیدوار 10 روز کے اندر حلقے میں پولنگ عملے کی تعیناتی چیلنج کرسکے گا۔
کمیٹی میں اتفاق کیا گیا ہے کہ سکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے باہر ڈیوٹی دیں گے اور ہنگامی صورتحال میں پریزائیڈنگ افسر کی اجازت سے پولنگ اسٹیشن کے اندر آسکیں گے۔
زارت قانون 2 روز میں انتخابی اصلاحات مسودے کو حتمی شکل دے گی جس کے بعد ترامیم کو آئندہ ہفتے دونوں ایوانوں میں الگ الگ پیش کر کے منظور کرایا جائے گا۔