یہ تحریر ابتدائی طور پر گزشتہ برس 2023 میں شائع کی گئی تھی جسے آج قدرت اللہ شہاب کی برسی کی مناسبت سے وی نیوز کے قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔
قدرت اللہ شہاب ممتاز بیورو کریٹ تھے۔ 26 فروری 1917 کو گلگت میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم جموں و کشمیر اور انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ماسٹرز کیا اور 1941 میں انڈین سول سروس جوائن کرلی۔ بہار اور اڑیسہ میں خدمات انجام دینے کے بعد 1943 میں بنگال میں تعینات رہے۔ 1947 کے اوائل میں قائداعظم سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد متعدد انتظامی عہدوں پر فائز رہے، آزاد کشمیرکے سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارت اطلاعات، ڈپٹی کمشنر جھنگ، ڈائریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب اور گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرائیویٹ سیکریٹری، سیکریٹری اطلاعات، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور بطور سیکریٹری ایجوکیشن بھی خدمات انجام دیں۔ جنرل یحیی خان کے اقتدار میں آنے کے بعد سول سروس سے استعفی دیکر یونیسکو سے وابستہ رہے۔ قدرت اللہ شہاب بااثر نثرنگار ادیب بھی ہیں۔ ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سوانح حیات ’شہاب نامہ‘ قابل ذکر ہیں۔ 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں خالق حقیقی سے جا ملے اور اسلام آباد کےH-8 قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
قدرت اللہ شہاب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی سوانح حیات ’شہاب نامہ‘ اردو میں لکھی گئی آپ بیتیوں میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔ انہیں زمانہ طالب علمی میں لاہور میں ایک ہندو لڑکی سے محبت ہو گئی تھی، جسے وہ تاحیات بھُلا نہ پائے۔ شہاب نامہ میں بھی اس لڑکی کا ذکر ’چندراوتی‘ کے نام سے درج ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ان کے پہلے افسانے کا نام بھی ’چندراوتی‘ ہے۔ انہوں نے ’چندراوتی‘ اختر شیرانی کو بھجوایا جو انہوں اپنے رسالے ’رومان‘ میں شائع کیا۔ 1938 میں شائع ہونے والا افسانہ ’چندراوتی‘ قدرت اللہ شہاب کی کسی بھی کتاب شامل نہیں۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’افسانہ لکھتے لکھتے میں کئی بار رویا کئی بار ہنسا، جب میں افسانہ لکھ رہا تھا تو پروفیسر ڈکنسن کلاس لے کر حسب معمول کالج کے لان سے گزرے تو مجھے دیکھ کر رک گئے اور بولے:
“Hello, roosting alone? Where is your golden girl?”
میری آواز مچھلی کے کانٹے کی طرح گلے میں پھنس گئی اور میں نے سسکیاں لے کر کہا:
“Sir. She has reverted to the gold mine.”
چندراوتی لیڈی میکلیگن کالج کی سٹوڈنٹ تھی اور موہنی روڈ پر آشرم میں رہتی تھی۔ دونوں کی پہلی ملاقات پنجاب پبلک لائبریری میں ہوئی، شہاب نے اپنے نام جاری کروائی کتاب بصد اصرار اسے دیدی پھر کیا تھا کہ وہ گورنمنٹ کالج آنے جانے لگی، شہاب کلاس چھوڑ کر اس کے ساتھ لان میں بیٹھ جاتے اور اسے بڑی محنت سے پڑھاتے رہتے تھے۔
ایک دن دونوں لان میں بیٹھے تھے کہ پروفیسر ڈکنسن قریب سے گزرے تو شہاب کو دیکھ کر رک گئے اور مسکرا کر بولے۔ ’تمہارے لیے یہی مناسب مقام ہے کلاس روم میں تو ایک بھی ایسی گولڈن گرل نہیں۔‘
چندراوتی نے نہ جہانگیر کا مقبرہ دیکھا تھا، نہ نورجہاں کے مزار پر گئی تھی اور نہ ہی شالیمار باغ کی سیر کی تھی۔ شہاب ہر اتوار سائیکل کرائے پر لیتے اور اسے کیریر پر بٹھا کے تاریخی مقامات کی سیر کرا لاتے۔ وہ بھی آشرم سے آلو کی بھجیا اور پوریاں بنا لاتی پھر کہیں نہ کہیں بیٹھ کر پکنک منا لی جاتی تھی۔
شہاب نے کرائے سے بچنے کے لیے اپنی سائیکل خریدنے کا تہیہ کیا اور ٹیوشن پڑھا پڑھا کر 72 روپے کی فلپس سائیکل خرید لی تھی۔ لاہور میں کسی ٹریفک سارجنٹ نے بھی اتنی گشت نہیں کی ہوگی جتنی ان دونوں نے کی۔ ایک اتوار چندراوتی آشرم میں اداس بیٹھی تھی اور اپنی ماں کے لیے فکر مند تھی۔ شہاب نے اسے کیریر پر بٹھایا اور ایمن آباد کی راہ لی، 27 میل کا فاصلہ باتوں ہی باتوں میں کٹ گیا۔
ایمن آباد کی تنگ و تاریک گلی میں چھوٹا سا بوسیدہ گھر جہاں چندراوتی کی بیوہ ماں رہتی تھی جو ایک آڑھتی کے ہاں برتن مانجھنے کپڑے دھونے اور گھر کی صفائی پر مامور تھی۔ جگدیش چندر اسے معقول تنخواہ دیتا تھا اس وجہ سے کہ اس کی بیٹی خوبصورت تھی۔ جب کبھی وہ لاہور آتا تو چندراوتی کو اس کی ماں کی خیر خیریت بتانے آشرم ضرور جاتا تھا۔ جب کبھی چندراوتی آلو کی بھجیا اور پوریوں کے ساتھ مٹھائی لاتی تھی تو شہاب سمجھ جاتے تھے کہ جگدیش چندر آیا ہوگا۔
تیسرے پہر دونوں لاہور کے لیے روانہ ہوئے تو سائیکل کے پیڈل اس طرح گھومنے لگے جیسے دھنکی ہوئی روئی کے گالے ہوا میں اڑتے ہیں۔ شہاب نے ترنگ میں عاشقانہ شاعری موزوں کرنا شروع کر دی، دو 3 بار چندراوتی نے سختی سے ٹوکا لیکن جب شہاب نہ مانا تو اس نے چلتی ہوئی سائیکل سے چھلانگ لگا دی، وہ منہ کے بل گری اور اس کی بائیں کہنی چھل گئی۔ شہاب نے اپنا رومال پیش کیا تو اس نے جھٹک کر زمین پر پھینک دیا۔ چندراوتی کا اصرار تھا کہ وہ پیدل لاہور جائے گی سائیکل پر نہیں بیٹھے گی۔ شہاب نے اپنے کان کھینچے ہاتھ جوڑے، معافی مانگی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ شہاب زمین پر ناک سے لکیریں کھینچنے لگے تو وہ کھکھلا کر ہنس دی اور سڑک پر پھینکا ہوا رومال اٹھا کر دیا کہ اپنی ناک صاف کرلو۔
چندراوتی کی حسرت تھی کہ وہ کسی طرح بنارس جا کر گنگا اشنان کرلے لیکن شہاب کا کہنا تھا کہ پہلے وہ پاپ کمائے پھر گنگا میں نہائے، اشاروں، کنایوں، تلمیحوں، تشبیہوں، استعاروں اور طرح طرح کی ترکیبوں سے اس کا ذہن برانگیختہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار منہ کی کھانا پڑتی۔ یوں شہاب کا مزاج چڑچڑا ہوتا گیا، چھوٹی چھوٹی باتوں میں چندراوتی کے ساتھ جھگڑا کرنا معمول بن گیا۔ دن بھر سائیکل پر گھومنا احمقانہ حرکت محسوس ہونے لگی، وہ گناہ بے لذت سے جھنجھلانے لگے تھے۔
شہاب ایک رات نیند نہ آنے پر بے وضو ہی داتا دربار چلے گئے اور مزار کی محراب سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، آنکھیں بند کرکے انتہائی انہماک کے ساتھ ’چندراوتی، چندراوتی‘ کا ورد کرتے رہے۔ پھر ایکایک دبی خواہشات کا کھولتا ہوا لاوا ابل کر روئیں روئیں سے پرنالوں کی طرح بہنے لگا اور وہ بڑی دیر تک محراب کے کونے میں سر دیے بلک بلک کر روتے رہے۔
شہاب کہتے ہیں ’میرے گرد و پیش میں کئی لوگ بڑے خضوع و خشوع سے اپنی مرادیں مانگ رہے تھے، میں نے بھی یکسوئی سے اپنی مراد مانگنے کی تیاری کی لیکن میرے دل کی آرزو اس قدر ننگی تھی، کہ الفاظ کا کوئی جامہ اس پر پورا نہ اترتا تھا، ایک فقرہ بھی ایسا نہ تھا جو دراصل چندراوتی کو بے آبرو نہ کرتا ہو، اس قسم کی تمنا سے مجھے حجاب آ گیا، داتا صاحب بھی کیا سوچیں گے، کہ یہ بیوقوف میرے سامنے کیسی الٹی باتیں کر رہا ہے، تصور ہی تصور میں مجھے داتا صاحب ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں جوتا اٹھائے اپنی جانب لپکتے ہوئے نظر آئے تو مجھے زور سے ہنسی آ گئی، ہنستے ہنستے میں آس پاس بیٹھے ہوئے زائرین کو روندتا ہوا باہر بھاگ آیا۔‘
اگلے روز ہاتھ جوڑ کر چندراوتی سے معافی مانگی لیکن وہ بدستور روٹھی رہی۔ اس پر ناک سے لکیریں نکالنے کا ڈرامہ رچایا، آشرم کے دروازے پر ایسی حرکت سے جگ ہنسائی کا خطرہ تھا اس لیے وہ مان گئی اور دونوں سائیکل پر لارنس گارڈن چلے گئے۔ اس روز چندراوتی کچھ کھوئی کھوئی سی تھی۔ اس نے دو 3 بار شہاب کا سانس سونگھنے کی کوشش کی کہ کہیں نشہ تو نہیں کرنے لگا۔
سائیکل کی سواری سے اس کا جی بھر گیا تھا۔ شالیمار باغ، مقبرہ جہانگیر اور لارنس گارڈن کی کشش ختم ہوگئی تھی۔ بیڈن روڈ کے دہی بھلوں اور گول گپوں کا شوق بھی پورا ہوگیا تھا۔ کامران کی بارہ دری میں اکٹھے بیٹھ کر گھنٹوں راوی کی لہریں گننے کا مشغلہ بھی دم توڑ گیا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر الجھنے لگی تھی۔ ایک روز وہ کسی دکان سے قمیص کا کپڑا خرید رہی تھی۔ شہاب نے رنگوں کے انتخاب پر کچھ بات کی تو وہ خریداری چھوڑ کر پیدل ہی آشرم کو لوٹ گئی۔ اگلے روز علم ہوا کہ اس نے آشرم چھوڑ دیا ہے اور وہ ایمن آباد چلی گئی تھی۔
شہاب اس کے تعاقب میں بھاگم بھاگ ایمن آباد پہنچے وہ ایک چٹائی پر بیٹھی کپڑے سی رہی تھی، نظریں سلائی پر گاڑے خاموشی سے مشین چلاتی رہی اور سر اوپر اٹھائے بغیر اس نے دھیمے لہجے میں کہا کہ وہ گرمیوں کی چھٹیاں کپڑے سی کر کچھ پیسے جمع کرے گی اور ستمبر میں ماتا کو لیکر گنگا اشنان کے لیے بنارس چلی جائے گی۔ پھر آدھا گھنٹہ دونوں خاموش بیٹھے رہے پھر شہاب یہ کہہ کر چلا آیا کہ ‘اب میں جاتا ہوں پھر کسی روز آؤں گا۔‘ چندراوتی نے جلدی سے کہا ’اب چھٹیوں میں بالکل نہ آنا، میرے کام میں ہرج ہوتا ہے۔‘
شہاب نے گرمیوں کی چھٹیوں میں 2 مہینے کے لیے کیمبل پور میں ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ منت سماجت کرکے 100 روپیہ پیشگی وصول کرلیا اور چندراوتی کی خدمت میں بھیج دیا۔ لکھا کہ سلائی مشین پر وقت ضائع نہ کریں بلکہ اپنے امتحان کی تیاری کریں، بنارس یاترا کے لیے 2 سو روپیہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔ لیکن چند روز بعد منی آرڈر جوں کا توں واپس آ گیا۔ اگلے مہینے 2 سو روپے کا منی آرڈر بھیجا وہ بھی واپس آ گیا۔
چھٹیاں ختم ہوتے ہی شہاب ایمن آباد گیا۔ وہ چارپائی پر بیمار پڑی تھی، اس کی ماں پاس بیٹھی پنکھا جھول رہی تھی۔ شہاب کو دیکھتے ہی چندراوتی اٹھ کر بیٹھ گئی اور تنک کر بولی ’منی آرڈر کیوں کیا تھا؟ خود کیوں نہیں لائے؟‘۔ شہاب نے جواب دیا کہ ’خود کیسے لاتا؟ تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ چھٹیوں میں یہاں نہ آنا میرے کام میں ہرج ہوتا ہے۔‘ چندراوتی نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا ’ہائے رام، تم میری ہر بات کو سچ کیوں مان لیتے ہو؟‘۔
چندراوتی نے بستر پر بیٹھے بیٹھے بیماری کی رام کہانی سنائی۔ ایک روز اسے ہلکی حرارت شروع ہوئی پھر کھانسی کے ساتھ تیز بخار ہو گیا۔ وید ٹھنڈے شربتوں سے علاج کرتا رہا لیکن کھانسی بڑھتی گئی، 21 دن بعد بھی بخار نہ ٹوٹا تو گوجرانوالہ میں سول سرجن کو دکھایا جس نے تپ دق تشخیص کی۔ ٹی بی کی خبر سن کر جگدیش چندر نے چندراوتی کی ماں کو گھریلو ملازمت سے نکال دیا۔ محلے والوں نے بھی ان کے ہاں آنا جانا بند کر دیا تھا۔ ماں بیٹی سلائی مشین بیچ کر کھانا پینا اور دوا دارو کر رہی تھیں۔
شہاب ہر دوسرے تیسرے دن ایمن آباد چلے جاتے تھے۔ سارا دن ماں بیٹی کے ساتھ تاش کھیلتے اور گپیں ہانکتے اور شام کو سائیکل پر لاہور آ جاتے۔ رفتہ رفتہ چندراوتی کی کھانسی کے دورے بڑھنے لگے تھے اور وہ بے سدھ ہو کر بستر پر گر جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر شہاب ایمن آباد آ گئے دن بھر چندراوتی کے پاس رہتے اور رات کو مقامی مسجد کے صحن میں سو جاتے تھے۔
ایک دن چندراوتی کھانس رہی تھی تو پچکاری کی طرح منہ سے خون نکل آیا۔ اب نہ وہ اٹھ سکتی تھی، نہ بیٹھ سکتی تھی۔ چندراوتی کا حال دیکھ کر شہاب گوجرانوالہ کے سول سرجن کے پاس گئے، احوال سننے کے بعد بھی سرجن نے ایمن آباد آنے انکار کر دیا لیکن 16 روپے فیس لیکر نئے مکسچر کا نسخہ لکھ دیا۔ شہاب مسکچر بنوا کر ایمن آباد پہنچے تو چندراوتی دنیا چھوڑ چکی تھی۔
شام گئے شمشان میں اڑھائی من سوکھی لکڑی کی چتا بنائی گئی۔ چندراوتی کو اس میں لٹا کر بہت سا گھی چھڑکا اور صندل کے چھوٹے سے ٹکڑے سے اسے آگ دکھا دی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکی جل کر راکھ ہو گئی جس نے کبھی شہاب کے ہاتھ کا چھوا پانی تک نہ پیا تھا۔ چندراوتی کی ماں نے لالٹین کی مدھم روشنی میں بیٹی کے پھول چنے اور راکھ پوٹلی میں باندھ لی۔ شہاب نے سائیکل بیچ کر چندراوتی کی ماں کو بیٹی کے ’پھول‘ گنگا میں بہانے کے لیے بنارس جانے والی گاڑی میں سوار کرا دیا تھا۔
لاہور ریلوے سٹیشن سے ٹرین روانہ ہوئی تو اس کی پچھلی سرخ بتی دور تک اندھیرے میں خون آلود جگنو کی طرح ٹمٹماتی رہی۔ شہاب کئی روز تک دن رات ان شاہراہوں پر پا پیادہ گھومتے رہے جہاں وہ سائیکل پر چندراوتی کو گھماتے تھے۔ چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ گئے جب مزید چلنے کی سکت باقی نہ رہی تو گورنمنٹ کالج کے لان میں پہلا افسانہ لکھنے بیٹھ گئے۔ افسانے کا عنوان تھا ’چندراوتی‘ اور اس کا پہلا جملہ تھا:
’جب مجھے چندراوتی سے محبت ہوئی، اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔‘