اسلام آباد میں سول جج عاصم حفیظ کے گھر پر مبینہ طور پر ان کی اہلیہ ثومیہ کے ہاتھوں کمسن گھریلو ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے متعلق خبریں گزشتہ چند روز سے میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے بچی کے والد کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق بچی کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے ہے جب کہ وہ گزشتہ 6 ماہ سے سول جج عاصم حفیظ کے گھر پر بطور ملازمہ کام کر رہی تھی۔ والدین جب اپنی 14 سالہ بچی سے ملنے آئے تو انہیں بچی زخمی حالت میں روتے ہوئے ملی۔ اس کے علاوہ بچی کے والد کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہیں ان کی بچی نے بتایا کہ جج کی اہلیہ روزانہ اس پر ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتیں اور کمرے میں بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھیں۔ بچی کے سر پر جگہ جگہ زخم تھے جن میں چھوٹے کیڑے پڑ چکے تھے۔ اس کا بازو، دونوں ٹانگیں اور ایک دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق بچی کے جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے علاوہ ان کے گلے پر بھی نشانات تھےجیسے کسی نے گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہو۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ماضی میں کمسن بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین بنانے میں معاونت کرنے والے وکیل شرافت علی نے بتایا کہ ’شاید لوگ سمجھ رہے ہوں کہ میں بچی کا وکیل ہوں لیکن ایسا نہیں ہے کیوں کہ معاملات ابھی وکیلوں تک نہیں آئے، ابھی صرف ایف آئی آر درج ہوئی ہے اور پولیس کی پوری تفتیش کے مطابق سول جج کی بیگم کو گرفتار کرے گی پھر جب وہ ضمانت کی جانب بڑھیں گے تو معاملہ وکیلوں تک آئے گا‘۔
شرافت علی نے بتایا کہ ان کی جج عاصم حفیظ سے بات ہوئی ہے اور وہ کافی ناراض ہیں کہ تمام میڈیا خبریں دیے جا رہا ہے مگر کسی نے ان کا موقف کیوں نہیں لیا۔ وکیل نے مزید کہا کہ جج صاحب کی جاب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ پیمرا میں اس کے خلاف ایکشن لیں گے کہ ان کے خلاف خبریں ان کے موقف کے بنا کیوں چلائی جا رہی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جج عاصم حفیظ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ جلد استعفیٰ دے دیں گے اور پھر وہ بھی ایک عام شہری ہونے کے ناطے یہ کیس لڑیں گے۔
شرافت علی کے مطابق جج نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بچی پر تشدد ان کے گھر پر نہیں بلکہ بچی کی والدہ نے خود کیا ہے اور بچی واپس نہیں آنا چاہ رہی تھی تو اس کی ماں نے اسے مارا تھا اور اس کے سر پر گملا لگا تھا تو یہ چوٹ ابھی کی نہیں بلکہ پرانی ہے اور میڈیکل رپورٹ کے مطابق بھی ایسا ہی آیا ہے۔
وکیل شرافت علی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر غیر قانونی ہے مگر تقریباً تمام صوبوں میں چائلڈ لیبر کی عمر مختلف ہے۔ جیسا کہ خیبر پختونخواہ میں 12 سال کے بعد بچے کو کام پر لگایا جا سکتا ہے ہے جب کہ پنجاب میں 15 برس کے بچے کام کرسکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح کہیں عمر کی حد کم از کم 14 سال بھی ہو سکتی ہے تو یہ جو عمروں کے متعلق قوانین میں فرق ہے اس وجہ سے اتنی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے کہ بچوں کو ملازمتوں پر رکھ لیا جاتا ہے اور یہ ایک مسئلہ ہے۔
وی نیوز نے اس حوالے سے اسلام آباد پولیس ترجمان سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اسی طرح جج عاصم حفیظ سے بھی رانطے کی کوششیں کی گئیں مگر بے سود۔