سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کا ایشو ابھی حل طلب ہے، میں واپس جا کے مختلف فیصلے دیکھوں گا، اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
واضح رہے کہ سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ، مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا ’فیصل صدیقی آپ بہت محترم ہیں کیونکہ آپ انسانیت کی خدمت کرتے ہیں لوگوں کے مفت مقدمات لڑتے ہیں، لیکن اس طرح کی درخواستیں دائر نہ کیا کریں‘۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بعض ججز چھٹیوں پر ہیں اور بعض چھٹیوں پر جانے کے منتظر ہیں، فل کورٹ ستمبر تک دستیاب نہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اللہ کے سوا کسی کی مدد نہیں چاہیے۔
اس سے قبل اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ آرمی کی تحویل میں ملزمان کو قانون کے مطابق تمام سہولیات دی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں جو یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں، ان پر عمل ہو رہا ہے، ملزمان کو مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہے، گھر والوں سے ملاقاتیں کروائی جا رہی ہیں۔ طبی سہولیات کے پیش نظر سی ایم ایچ کی ایک ٹیم تیار رہتی ہے، کسی کی عزت وتکریم کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ اگر کسی کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے تو رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا جہاں پر دلائل رکے تھے وہاں سے ہی شروع کردیں، انہوں نے کہا کہ ہم اپنا کام جاری رکھیں گے چاہے کوئی پسند کرے یا نہ کرے۔ ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے، ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں، یہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیاکہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر عدلیہ اور مقننہ کے دائرہ کار میں تفریق کیسے کریں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ کورٹ مارشل کا دائرہ کار الگ کیا گیا ہے، میں اس معاملے پر لیاقت حسین کیس سمیت مختلف فیصلے پڑھوں گا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے سوال کیاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ فوجی عدالتیں قانون کے مطابق نہیں ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ عدالتیں قانون کے تحت بنی ہیں، لیکن آئین کے آرٹیکل 175 سے مثتثنٰی ہیں، میں عدالتی سوالات کا جواب بی دوں گا لیکن یہ بتاتا چلوں کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت نہیں آتا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیاکہ اگر یہ بات ہے تو درخواست گزاروں کا استدلال درست نہیں ہو جاتا، درخواست گزار یہی کہہ رہے ہیں کہ سویلین شہریوں کے بنیادی حقوق ہیں، بنیادی حقوق تو پھر آرٹیکل 175 کے تحت قائم عدالتیں ہی دیکھیں گی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل 175 کے تحت فوجی عدالت، عدلیہ کے معیار پر پورا نہیں اترتی کیونکہ اس میں اپیل کا حق اور اعلیٰ عدالتوں کی نگرانی نہیں ہوتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے بھی کہاکہ کورٹ مارشل بنیادی طور پر فوجی نظام انصاف ہے، اگر عدلیہ کی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے تو فوجی عدالت کی تعریف آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ جو زیر حراست 102 افراد ہیں انکے ٹرائلز کس عدالت میں ہوں گئے، مارشل لاء کورٹس یا ملٹری کورٹس میں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیاکہ ملٹری کورٹس میں ان افراد کا ٹرائل ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ گزشتہ سماعت پر جسٹس منیب اختر نے کہا تھا کہ حکومت جانے والی ہے، تو اٹارنی جنرل کیسے یقین دہانی کرا سکتا ہے، اس وجہ سے براہ راست جی ایچ کیو سے ہدایات لی ہیں، ممکن ہے ایک ہفتے بعد میں اور حکومت نہ ہوں اس لیے ڈائریکٹ ہدایات لی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ دیکھنا ہوگا کہ سازش میں شامل غیر ملکی افراد اس حق کے اہل ہوں گے یا نہیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔
سویلین کے لیے ملٹری کورٹس ایک متوازی جوڈیشل سسٹم نہیں ہوگا جسٹس منیب اختر
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہاکہ گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران کئی قوانیں منظور ہوچکے ہیں، آرمی ایکٹ میں بھی کئی ترامیم ہوچکی ہیں، کچھ کمیٹی میٹنگز میں شرکت کرسکا کچھ میں نہیں، کچھ ترامیم کا پتہ نہیں چلا۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہاکہ آپ یہ بیان عدالت کے سامنے دے رہے ہیں، اور عدالت نے اپیل کا حق ملنے سے متعلق پوچھا تھا جس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ سویلین کی چار کیٹگریز ہیں، ایک وہ جو غیر ملکی ہیں مگر ان پر آرمی ایکٹ لگا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ دیکھنا ہوگا کہ سازش میں شامل غیر ملکی افراد اس حق کے اہل ہوں گے یا نہیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔
فل کورٹ بنانے کے لیے سول سوسائٹی کی درخواست
سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف کیس میں ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں سویلیئنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف نئی درخوست شہری کرامت علی کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس میں استدعا کی گئی کہ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا کیس مفاد عامہ کا ہے، اس پر فل کورٹ بنایا جائے۔
درخواست گزار کرامت علی کے وکیل فیصل صدیقی نے فل کورٹ تشکیل دینے کی متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ ماضی میں بھی فوجی ٹرائل سے متعلق کیس 9 ممبرز بینچ یا فل کورٹ نے ہی سنا ہے، وفاقی حکومت نے بھی فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جس کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
درخواست گزار کے مطابق حکومت کے کئی وزراء بھی موجودہ بینچ پر پبلک میں تنقید کر چکے ہیں، فل کورٹ کے فیصلے پر آج تک اسٹیبلشمنٹ سمیت سب نے عمل کیا ہے، سپریم کورٹ کے موجودہ بینچ کے رکن جسٹس یحیی آفریدی بھی فل کورٹ بنانے کا کہہ چکے ہیں۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ ہو، چیف جسٹس پاکستان دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ بنا کر کیس سنیں، اٹارنی جنرل پہلے ہی یقین دہانی کرا چکے کہ کسی سویلین کا ٹرائل شروع نہیں ہوا، فل کورٹ کا فیصلہ آنے سے سویلینز کا فوجی عدالت میں ٹرائل کا معاملہ ایک ہی بار حل ہو جائے گا۔
آرمی ایکٹ ہے کیا اور مقدمات کیسے چلائے جاتے ہیں؟
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی اہلکاروں کے خلاف ٹرائل عمل میں لایا جاتا ہے تاہم اس ایکٹ میں کچھ شقیں ایسی بھی موجود ہیں جن کے تحت سویلینز کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
آرمی ایکٹ کے تحت کام کرنے والی فوجی عدالتیں جی ایچ کیو ایجیوٹنٹ جنرل (جیگ) برانچ کے زیرنگرانی کام کرتی ہیں اور اس عدالت کی سربراہی ایک حاضر سروس فوجی افسر کرتے ہیں۔
سنہ 2015 میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کرنے کے منظوری دی گئی تھی جن کا بنیادی مقصد دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث افراد کے خلاف تیزی سے ٹرائل کرنا اور سزائیں دلوانا تھا۔
کیا ماضی میں سویلینز کے خلاف فوجی عدالتیں فیصلہ دے چکی ہیں؟
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل (ر) انعام الرحیم نے بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں جنرل باجوہ نے بطور آرمی چیف 25 ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزاؤں کی توثیق کی تھی۔
ان کے مطابق یہ وہ سویلینز تھے جن پر دہشت گردی نہیں بلکہ جاسوسی، قومی راز دشمن تک پہنچانے جیسے الزامات تھے، ان ملزمان کو کب اور کہاں سے گرفتار کیا گیا؟ اس حوالے سے کوئی معلومات سامنے نہیں لائی گئی تھیں۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق ان افراد میں 3 ملزمان کو سزائے موت اور دیگر کو مختلف سزائیں ہوئی تھیں جن کے خلاف ہائیکورٹس میں اب بھی اپیلیں موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر مہدی عسکری کے بیٹے حسن عسکری کو فوجی عدالت نے 5 برس قید با مشقت کی سزا سنائی تھی۔
حسن عسکری پر الزام تھا کہ انھوں نے 2020 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی مدت ملازمت میں توسیع ملنے اور فوج کی پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کو کہا تھا۔
ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے یہ خط دیگر جرنیلوں کو بھی ارسال کیے تھے جس کا مقصد فوج میں بغاوت کرانا تھا۔
کرنل ریٹرائرڈ انعام الرحیم کے مطابق اگرعمران خان کا اس کے تحت ٹرائل کیا جاتا ہے تو انہیں 7 سے 10 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے جبکہ انہیں اس کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کا حق ہوگا۔