مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی سابق سینیٹر اور چیئر پرسن نیشنل کمیشن برائے حقوق اطفال عائشہ رضا فاروق کا سول جج کی اہلیہ کے ہاتھوں مبینہ طور پر تشدد کا شکار بننے والی 14 سالہ رضوانہ کے بارے میں کہنا ہے کہ اس بچی کو دیکھنا ناقابل برداشت تھا۔ اس کا چہرہ دیکھ کر لگتا تھا جیسے کسی نے تیزاب پھینکا ہو۔ زخموں میں کیڑے پڑ چکے تھے۔ رضوانہ کو بلے، لاٹھیوں اور کھانا پکانے والے چمچوں (کف گیر) سے مارا گیا۔ ایک انسان دوسرے انسان پر اتنا تشدد کیسے کرسکتا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اتنی پرانی چوٹیں ہیں کہ ہڈیاں بھی غلط جگہ سے جڑی ہوئی ہیں۔
مجھے کئی راتوں تک نیند نہیں آئی
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عائشہ رضا کا کہنا تھا کہ رضوانہ کی والدہ نے دل دہلا دینے والی باتیں بتائیں، ان کے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ ان کو یاد ہی نہیں تھا کہ بچی 6 مہینے پہلے کام کرنے گئی یا سال قبل، اس عرصے میں بچی سے صرف ایک یا 2بار بات ہوئی۔
عائشہ رضا کہتی ہیں اس بچی کو جس طرح مارا گیا یہ باتیں ہم صرف دوسروں سے سنتے تھے لیکن پہلی بار دیکھنے کے بعد میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی۔ مجھے کئی راتوں تک نیند نہیں آئی۔ اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
چوتھی ایف آئی آر میں اقدام قتل کی شق ڈالی گئی
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے اتنی کمزور ایف آئی آر بنائی کہ سول جج کی اہلیہ کو عدالت سے ضمانت مل گئی۔ لیکن سوسائٹی کے پریشر سے چوتھی ایف آئی آر کو مضبوط بنا کر اس میں اقدام قتل کی شق بھی ڈالی گئی ہے۔
لوگوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟
سینیٹر عائشہ رضا فاروق کا کہنا ہے کہ میڈیکل سرٹیفیکیٹ اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ مجرم قانون کے شکنجے سے نہ نکل سکے۔ با اثر اور طاقتور لوگ جو خود قانون کے محافظ ہیں، جب ایسے لوگ قانون کے شکنجے سے نکل جائیں تو آپ باقی لوگوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔
پتا نہیں ایسے کتنے ہی بچوں پر تشدد ہوتا ہوگا
چیئر پرسن نیشنل کمیشن برائے حقوق اطفال عائشہ رضا فاروق نے کہا یہ تو ایک رضوانہ منظرِ عام پر آئی ہے، پتا نہیں ایسے کتنے ہی بچوں پر تشدد ہوتا ہو گا۔ پہلے طیبہ کیس آیا جس پر چیف جسٹس نے سو موٹو لیا، اور اب رضوانہ کا کیس ہمارے سامنے ہے۔ بچوں پر تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قوانین لانے کی ضرورت ہے۔
چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار تشویشناک ہیں
چائلڈ لیبرکے حوالے سے بات کرتے ہوئےعائشہ رضا نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار تشویشناک ہیں، لیکن حکومتی اور دیگر اداروں کی کاوشوں سے اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ پنجاب میں بچے بڑی بڑی فیکٹریوں میں کام کرتے نظر نہیں آئیں گے، یہ لوگوں کے گھروں، ورکشاپوں یا بھٹوں میں کام کرتے ہیں۔ چائلڈ لیبر غیر سرکاری اور غیر دستاویزی ہے، اس لیے چیک رکھنا اور ان کو ریگولیٹ کرنا بہت مشکل ہے۔ اس پر بہت سے زاویوں سے کام ہونے کی ضرورت ہے۔
چائلڈ لیبر کو کریمنلائز کیا جائے
چائلڈ لیبر پر بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم حکومت کو تجویز دے رہے ہیں کہ چائلڈ لیبر کو کریمنلائز کیا جائے اور پاکستان پینل کوڈ میں ترامیم کی جائیں۔ ایسے والدین کو بھی سخت سزا دینی ہو گی تاکہ وہ اپنےکم عمر بچوں کو کام کے لیے نہ بھیجیں۔
عوام کے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے
عائشہ رضا نے کہا کہ ریاست کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ آئین بھی کہتا ہے کہ 16 سال تک کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دی جائے۔ لیکن ان سے مشقت کروا کر تعلیم کا یہ حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ ہمیں عوام کے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر خاندان کو چھوٹا رکھیں گے تو بچوں کی بہتر پرورش کر سکیں گے۔
اسکولوں کی صرف عمارتیں بنانا ہی کافی نہیں
انہوں نے کہا کہ دوسری طرف اگر تعلیم کا بجٹ دیکھیں تو وہ بہت کم ہے۔ اسکولوں کی صرف عمارتیں بنانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اساتذہ کے پڑھانے کا معیار اور نصاب پر زور دینے کی بھی ضرورت ہے۔
چائلڈ لیبر کے حوالے سے اپنا کردارکے بارے میں بات کرتے ہوئے عائشہ رضا کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے بچوں کے لیے بہت کام کیا۔ اسکولوں سے باہر رہنے والے بچوں کو تعلیم دینے کی پوری مہم چلائی گئی، لیپ ٹاپ اسکیم شروع کی گئی اور اسلام آباد میں موبائل اسکول کا اجرا بھی کیا گیا ہے۔
پاکستان میں پولیو سیاست اور سیکیورٹی کا مسئلہ ہے
پاکستان سے پولیو کیوں نہیں ختم ہو رہا؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پولیو صحت کا نہیں بلکہ سیاست اور سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ لوگوں کے برین واش کیے جاتے ہیں، پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم تب تک پولیو کے قطرے نہیں پیئیں گے جب تک حکومت صاف پانی فراہم نہیں کرے گی اور سڑکیں نہیں بنائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک پولیو کی مہم متواتر نہ چلائی جائے اور ہر بچے کو ویکسین نہ لگائی جائے تب تک پولیو ختم نہیں ہو سکتا۔
زیادہ تر بزنس خواتین آگے لے کر آتی ہیں
عورتوں کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہوئے عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ خواتین کو سیاست میں زیادہ سے زیادہ آگے لانا چاہیے، الیکشن ایکٹ میں ترامیم بھی کی گئی تھیں کہ 5 فیصد خواتین جنرل سیٹوں پر آئیں لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کا خیرمقدم نہیں کیا گیا۔ حالانکہ ریسرچ کے مطابق زیادہ تر بزنس خواتین آگے لے کر آتی ہیں۔ ہمیں عورتوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور ان کے لیے مواقع پیدا کرنے چاہییں۔
خواتین سیاست میں مثبت کردار ادا کر رہی ہیں
انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی وجہ سے بہت سی پڑھی لکھی خواتین سیاست میں آگے آئی ہیں، نوجوانوں کو سیاست میں موقع دیا گیا اور اب کابینہ میں بہت سی خواتین ہیں جو سیاست میں مثبت کردار ادا کر رہی ہیں۔
کسی کے بارے میں ذمہ داری سے ریمارکس دینے چاہئیں
سینیٹر عائشہ رضا کا مزید کہنا تھا کہا میں اینٹی ریپ ایکٹ 2021 ہیڈ کر رہی ہوں۔ اس ایکٹ میں عورتوں اور مردوں کے خلاف تشدد کو شامل کیا گیا ہے۔ وہ خواتین جو تشدد کا شکار ہوتی ہیں وہ اس قانون سے مستفیض ہوسکیں گی۔ یہ بنیادی ڈھانچے تو ہم نے بنا دیے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ عورت گھر سے باہر اکیلی کیوں نکلی، اس نے فلاں طرح کے کپڑے پہنے تھے اس لیے تشدد ہوا۔ ہمیں کسی کے بارے میں ذمہ داری سے ریمارکس دینے چاہئیں۔
مسلم لیگ ن کو نئے چہروں کی تلاش تھی
سیاسی سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے عائشہ رضا نے کہا کہ 2013کے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ ن کو نئے چہروں کی تلاش تھی جس کے لیے انٹرویو کیے جا رہے تھے۔ مجھے وہ موقع ملا اور میں مسلم لیگ ن کی مخصوص نشست سے 2013 میں قومی اسمبلی میں آئی۔ پھر2015 میں سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لیا۔ سینیٹ میں 2 کمیٹیوں کی چیئر پرسن رہی۔
مَیں نے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا
اپنے تعلیمی کیریئرکے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹر عائشہ رضا کا کہنا تھا کہ ابتدائی تعلیم لاہور گرامر اسکول سےحاصل کی، لمز یونیورسٹی لاہور سے ایم بی اے کر کے لاہور اسکول آف اکنامکس میں پڑھانا شروع کیا۔ 2010 میں خاوند کے انتقال کے بعد خود کو مصروف رکھنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی ( قانون کی تعلیم) حاصل کی۔ مَیں نے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔