وائٹ ہاؤس نے جمعے کے روز اس بات پر زور دیا کہ ایک حالیہ معاہدے کے تحت غیر منجمد ہونیوالے ایرانی فنڈز کے استعمال پر کچھ قدغن عائد ہوں گی۔ مذکورہ معاہدے کی وجہ سے تہران میں پانچ امریکیوں کو جیل سے گھر میں نظر بند کیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا مکمل نگرانی کرے گا کہ غیر منجمد ہونیوالے ایرانی فنڈز کو کہاں کہاں استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 6 ارب ڈالر کے ایرانی اثاثے اس وقت جنوبی کوریا میں منجمد ہیں۔
’بنیادی طور پر، فنڈز تک رسائی صرف خوراک، ادویات، طبی آلات کے لیے ممکن بنائی جارہی ہے جن کا دوہرا فوجی استعمال نہیں ہو گا اور امریکی محکمہ خزانہ سے مشاورت کے ساتھ معیارات کا ایک سخت عمل لاگو کیا جائے گا۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران میں نظر بند پانچ امریکیوں کو ایرانی فنڈز غیر منجمد ہونے کے بعد ایران چھوڑنے کی اجازت دی جائے گی۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دونوں ممالک کے مابین بات چیت جاری ہے اور کچھ معاملات تصفیہ طلب ہیں، جان کربی کا کہنا تھا کہ جنوبی کوریا سے قطر کو محدود اکاؤنٹ کی منتقلی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، جہاں سے ایران فنڈز تک رسائی حاصل کر سکے گا۔
ایرانی فنڈز کی ممکنہ منتقلی نے ریپبلکن پارٹی کی تنقید کو دعوت دی ہے، جو سمجھتی ہے کہ ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن اس طریقہ سے دراصل امریکی شہریوں کے لیے تاوان ادا کر رہے ہیں۔
ان کا مزید دعویٰ ہے کہ انسانی ہمدردی کے لیے ان فنڈز کے استعمال کی اجازت دینے سے ایران کے جوہری پروگرام کو فائدہ پہنچے گا یا پھر عراق، لبنان اور یمن میں ملیشیاؤں کی پشت پناہی کو تقویت ملے گی۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن زور دے کر کہہ چکے ہیں کہ معاہدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایران کو پابندیوں میں کوئی ریلیف ملے گا۔
اس سلسلے میں پہلے قدم کے طور پر جو ممکنہ طور پر پیچیدہ حربوں میں ہفتوں لگ سکتے ہیں، ایران نے چار زیر حراست امریکی شہریوں کو جمعرات کو تہران کی جیل سے گھر میں نظربند کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ پانچواں امریکی شہری پہلے ہی گھر میں قید تھا۔
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن کے مطابق معاہدے کے تحت امریکا کچھ ایرانیوں کو امریکی جیلوں سے رہا کرے گا۔
گزشتہ روز وال اسٹریٹ جرنل نے اس معاملے سے واقف لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ایران نے ہتھیاروں کے درجے کی افزودہ یورینیم کو جمع کرنے کی رفتار کو سست کردیا ہے اور اس ضمن میں اپنے ذخیرے کو بھی کچھ کم کیا ہے۔
ترجمان وائٹ ہاؤس جان کربی نے کہا کہ وہ اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کر سکتے لیکن ایران افزودگی کو کم کرنے کے لیے جو بھی قدم اٹھا سکتا ہے یقیناً اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ ’ ہم جوہری پروگرام کے حوالے سے کسی فعال مذاکرات میں شامل نہیں لیکن یقینی طور پر اس قسم کے اقدامات خوش آئند ہوں گے۔‘
ایران اور امریکا کے مابین کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوگیا تھا جب گزشتہ ریپبلیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔ بعد میں بائیڈن انتظامیہ اور ایران کے درمیان معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوگئے تھے۔ ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوششوں کی تردید کی ہے۔