نوعمری میں مزدوری اور پھر تشدد کا شکار ہونے والی آج معصوم رضوانہ تھی تو اس سے قبل طیبہ جس سے اس کابستہ، کھیل کود تو چھن ہی گیا۔ مگر پھر اس کی آنکھوں سے خواب بھی چرانے کی کوشش کی گئی۔ ان پر اتنا بہیمانہ تشدت کیا گیا کہ ہر درد دل کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔ ظلم کرنے والوں میں پڑھے لکھے اور یقینا قانون سے آگاہی رکھنے والے ہیں۔
یہ کہانی صرف ان دومعصوم پھول بچیوں تک محدود نہیں بلکہ اس وقت جب یہ تحریر لکھ رہی ہوں تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں معصوم بچے ہیں جو غربت، تنگ دستی اور معاشی مجبوریوں کے باعث گھروں کے کفیل بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو قرض اتارنے پر بھی مجبور ہیں جس کے ماں باپ نے کچھ قرض لیا اور چکا نہ سکے۔ چلڈ لیبر کرنے والے بچوں پر پوری دنیا میں بات ہونے کے ساتھ کئی ممالک میں مثبت پیش رفت بھی ہوتی ہے۔
چائلڈ لیبر، دنیا کی صورتحال
اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 16 کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ یعنی ہر 10 میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر کر رہا ہے۔ چائلڈ لیبر کے مسائل اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہیں، تاہم وہاں ایسے بچوں کی تعداد کم ہے۔ اقوم متحدہ کے مطابق چائلڈ لیبر کرنے والے بچوں کی تعداد غریب ممالک میں زیادہ ہے، سب سے زیادہ تعداد افریقی ممالک اور دوسرے نمبر پر ایشاء اور پیسفک شامل ہیں۔
افریقہ میں چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی تعداد 72 ملین جبکہ ایشاء اور ایشائی ممالک میں چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی تعداد 62 ملین ہے۔ گھروں میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد 7 ملین سے زائد ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کورونا کے بعد معاشی حالات خراب ہونے کے باعث چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے۔
چائلڈ لیبر اور پاکستان
بدقسمتی سے پاکستان میں چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کے حوالے سے درست اعداوشمار ہی جمع نہیں کئے گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں چائلڈ لیبر کا صرف ایک بار سروے 1996 میں ہوا۔ اس کے بعد سے اب تک قومی سطح پر بچوں کی مشقت کے حوالے سے کوئی سروے نہ ہو سکا، شاید اقتدار میں آنے والی حکومتوں کی ترجیحات بچوں کی بہتری نہیں رہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں 1996 کا جو سروے ہوا اس میں 33 لاکھ بچے مشقت کرنے والوں میں شامل تھے۔
تنظیم کی طرف سے پاکستان میں گھروں میں کام کرنے کے حوالے سے 2022 میں جاری سٹڈی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ آئی ایل او کے مطابق چائلڈ لیبر کرنے والوں میں 8 فیصد بچے ڈومیسٹک لیبر کرتے ہیں۔ یعنی گھروں میں کاکام کرتے ہیں، جن کو جسمانی ،ذہنی اور جنسی تشدت کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ Child labour in domestic work
پاکستان میں ڈومیسٹک لیبر کرنے والے بچوں کی عمریں زیادہ طرح 5 سے 14 سال کے درمیان ہوتی ہے اور اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ جنہیں ماہانہ 3 ہزار سے 15 ہزار کی اجرت دی جاتی ہے۔ چائلڈ لیبر کرنے والے 80 فیصد بچے اپنے گھروں کے اخراجات چلاتے ہیں جبکہ 15 فیصد بچے والدین کی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے مشقت کرتے ہیں۔ پاکستان نے 2019 میں ملک بھر میں دوبارہ چائلڈ لیبر کرنے کا فیصلہ کیا، مگر اب تک صرف گلگت اور پنجاب چائلڈ لیبر کے حوالے سے سروے مکمل کر سکے ہیں،
ادارہ شماریات کے مطابق وفاقی سمیت باقی صوبے سروے پر کام کر رہے ہیں۔ ادارہ شماریات کے گراف کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وفاق جس کی آبادی کم ہے اور تمام وسائل کے باوجود چائلڈ لیبر سروے کاکام بلوچستان کے برابر ہی کر سکا ہے جو کہ المیہ ہے کہ جہاں طیبہ یا رضوانہ جیسے واقعات کے بعد پارلیمنٹ میں تک شور آتا ہے، قانون بن جاتے ہیں مگر عملی طور پر صورتحال مختلف ہے۔
چائلڈ لیبر کے حوالے سے پاکستان کے مختلف صوبوں کی صورتحال مختلف ہے ۔
گلگت بلتستان میں چائلڈ لیبر
چائلڈ لیبر کے حوالے سے گلگت بلتستان کی طرف سے مکمل کئے جانے والے سروے کو پاکستان ادارہ شماریات نےبھی اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا جس کے مطابق گلگت بلتستان میں اس وقت 13 اعشاریہ 1 فیصد بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں، صوبے میں 4 میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر کر رہا ہے۔ ایسے بچوں میں 21 اعشاریہ 5 فیصد بچے کسی نفسیاتی ،جسمانی یا جنسی زیاددتی کا شکار ہوتے ہیں۔
پنجاب اور چائلڈ لیبر کی صورتحال
سرکاری سطح پر پنجاب میں حالیہ طور پر چائلڈ لیبر پر مکمل ہونے والے سروے می کہا گیا ہے کہ پنجاب میں 5 سے 14 سال کے کی عمر کے 13 اعشاریہ 4 فیصد بچے چائلڈ لیبر کر رہے ہیں جبکہ چائڈ لیبر کرنے والوں میں زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے۔ پنجاب میں 5 سے 14 سال کے 16 اعشاریہ 8 فیصد لڑکے چائلڈ لیبر کرتے ہیں جبکہ لڑکیاں 9 اعشاریہ 7 فیصد کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد سائیوال کی ہے۔ 16 فیصد بچے مشقت کے دوران جسمانی ذہنی یا جنسی زیادتیکا نشانہ بنتے ہیں۔
چائلڈ لیبر روکنے میں ناکامی
بچوں سے مشقت روکنے والے غیر سرکاری ادارون اور ماہرین کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر کی بڑی وجہ ملکی معاشی صورتحال ہے۔ قومی سطح پر چائلڈ لیبر کی عمر کی حد تو 14 سال ہے مگر غربت کے باعث بچے پانچ سال کی عمر سے کام پر لگا دئیے جاتے ہیں۔ وفاق سمیت تمام صوبوں میں چائلڈ لیبر کو روکنے کے لیے قانون سازی اور پالیساں بنا دی گئ ہیں، ماہرین کے مطابق صرف پالیسان ہی کافی نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر کے دوران ہونے والے تشدت کی روک تھام کے لیے سزائیں پرعمل درآمد کو ییقنی بنانا ہو گا۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ جس بچے پر تشدد کیا جاتا ہے۔ اس کے والدین ہی کسی بھی وجوہات کی بناء پر جب معاف کر دیتے ہیں تو ایسے میں سزا کا خوف دم توڑنے لگتا ہے۔ آئی ایل او اس بات پر زور دیتا ہے کہ پاکستان کو دومیسٹک لیبر کے دوران تشدت کو روکنے کے لیے میکنزم کے نطام کو بہتر کرنا ہو گا۔