لاہور میں مخدومی سجاد میر کا گھر میری پناہ گاہ ہے اور میں یہاں عافیت سے ہوں۔ بندہ لاہور آئے اورعافیت کدے میں دبک کر بیٹھا رہے، یہ ممکن نہیں!۔
جمعے کا دن مبارک رہا۔ حضرت داتا گنج بخش کے عرس سے قبل بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں حصہ لینے کی سعادت ملی۔ پھر جناب شعیب بن عزیز سے ملاقات ہوئی۔
شعیب بن عزیز وہی ہیں جو منفرد لہجے میں سادہ سا شعر کہتے ہیں اور پڑھنے سننے والے کو چونکا دیتے ہیں۔ ان کی ابتدائی شہرت تو اس شعر سے ہوئی کہ:
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں
پھر یہ شعر تو جانے انہوں نے کب کب کہا ہو گا، لیکن ہمارا آج کا ماجرا کچھ یوں ہے کہ دل بھر آتا ہے۔
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
شعیب! دل تک راہ پانے والے شعر ہی آسانی کے ساتھ نہیں کہتے، باتیں بھی کمال کی کرتے ہیں۔ دوران گفتگو سجاد میر نے جمیل الدین عالیؔ کا ذکر چھیڑا تو شعیب شعیب بن عزیز نے بتایا کہ ایک بار عالی صاحب! نے انھیں فون کیا۔
دوران گفتگو انہیں ’اؑچھو‘ لگا تو گھونٹ پانی پینے کے بعد فرمانے لگے کہ میاں بھول رہا ہوں کہ کسے فون کیا تھا؟ اس پر شعیب بن عزیز کی رگ شرارت پھڑکی اور کہا کہ ذرا یاد کریں، آپ نے نواب شیفتہ کو فون کیا ہو گا۔ اس پر عالی صاحب! بھی قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکے۔
رات غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ برادرم سید عامر محمود اور نور الہُدیٰ نے جناب انور مسعود، جناب خالد مسعود اور عباس تابش کو سول ایوارڈ ملنے کی خوشی میں تقریب برپا رکھی تھی۔
میری آمد کی خبر پا کر انھوں نے مجھے بھی مدعو کر لیا۔ اہل لاہور کی زندہ دلی اور اہل علم و دانش سے غیر مشروط وابستگی کی روایت قدیم ہے۔
یہ تقریب اسی روایت کا تسلسل تھی۔ فاؤنڈیشن بھی خوب ہے، اس نے نہایت سنگلاخ سرزمین پر مختلف طبقات کے بچوں کے لیے اسکول قائم کر کے انہیں کامیابیاں سمیٹنے کا کیا خوب موقع فراہم کر رکھا ہے۔
سندھ میں اس ادارے نے جو کام کیا ہے، وہ شاندار ہے۔ اس موضوع پر کسی وقت تفصیل سے گفتگو ہوگی، ان شاءاللہ۔
خیال یہی تھا کہ آج ڈاکٹر تحسین فراقی کے ہاں حاضری دوں گا ۔ عطا الحق قاسمی صاحب! کو سلام کروں گا اور بھائی وجاہت مسعود کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ علامہ عبد الستار عاصم گھر میں ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہڑتال ہے اور کافی خرابی کا خطرہ ہے۔ کہا کہ بھائی، یہ ہڑتال 9 مئی کی طرح ریاست سے لڑنے والے کسی گروہ کی نہیں جماعت اسلامی کی ہے اور یہ جماعت سیاسی طور طریقے جانتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ جناب امیر العظیم موقع دیکھ کر مجھ جیسے مسکین پر کوئی فقرہ چست کر دیں، اس سے زیادہ خرابی کی توقع جماعت والوں سے نہ رکھیں، لیکن علامہ بضد تھے کہ کافی خطرہ ہے۔
یہ دلیل تو وہ تسلیم کرتے نظر آئے کہ جماعت کی طرف سے کوئی خرابی نہیں ہو گی لیکن یہ بھی کہتے رہے کہ لوگ بہت ناراض ہیں۔ یہ ناراضی دو طرح کی ہے۔ اول بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور دوم لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا غصہ۔
یہ غصہ کس قسم کا ہے؟، اس کی وضاحت آسان نہیں۔ علامہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک گروہوں میں بٹ چکا ہے۔ اول ’پیسنے والے‘ اور دوم ’پسنے والے‘ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ طبقہ اوّل ہر طرح کی آسانیوں سے مستفید ہو رہا ہے اور وہ ملک کی موجودہ آزمائش کے موقع پر بھی اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں۔
اس اقتصادی بحران میں وہ ساری قربانی ہم جیسے مڈل کلاس، لوئر کلاس اور غریب طبقات سے لینے کا خواہش مند ہے۔ اس صورت حال میں عوام کا غصہ اپنے عروج پر ہے۔ ایسے میں اگر کہیں سے کوئی ایک پتھر بھی چل گیا تو بس پھر اس کا اختتام مشکل ہے۔
بد امنی کے باب میں علامہ کے قیاس سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بنیادی طور پر ان کی بات درست ہی مانی گئی۔ لوگ بہت دکھی ہیں اور بے بسی کے عالم میں ہیں۔
ایک طرف ان کی سمجھ میں بھی آ رہا ہے کہ حالات اچھے نہیں۔ ملک آزمائش میں ہے اور یہ آزمائش قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔ وہ قربانی دے بھی رہے ہیں اور آئندہ بھی انہیں اس سے انکار نہیں، لیکن ان کی پریشانی اور دکھ دو طرح کا ہے۔
دکھ کی اس کیفیت کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں جیسے بجلی کا معاملے میں ایمان داری سے بل ادا کرنے والے عوام سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ان کے بل میں کس کس کا بل شامل ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ ریاست کے با اثر طبقات کا وزن تو ان کے کمزور کاندھوں پر ہے ہی لیکن ان قانون شکن عناصر کا بوجھ بھی وہی اٹھانے پر مجبور ہیں جن کی چوری کو لائین لاسز جیسی خوش نما ترکیب میں لپیٹ کر ظلم کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔
عوام پر پڑنے والے اقتصادی بوجھ کی دیگر صورتوں کی کیفیت بھی اس سے مختلف نہیں۔ دہائیوں سے برداشت کیے جانے والے اس بوجھ کے ساتھ موجودہ اقتصادی بحران کا غیر معمولی بوجھ بھی شامل ہو گیا ہے جس میں عوام کی سکت جواب دے چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علامہ عبدالستار عاصم جیسے ہمارے دوست محسوس کرتے ہیں کہ بعض دیگر سیاسی عوامل کے ساتھ یہ غصّہ بھی اگر شامل ہو گیا تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ ایک حل تو یہی ہے کہ یہ نظام جیسے چلتا ہے چلنے دیا جائے، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ’ظلم کی آندھی کو دوام نہیں ہوتا‘۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یکایک بھڑکنے والا کوئی شعلہ سب کچھ جلا کر بھسم کر دیتا ہے۔ اگرچہ سرِ دست ہمارے یہاں اس کا امکان کم ہے لیکن عوامی غیض و غضب کب کیا شکل اختیار کر جائے، اس کی پیش گوئی آج تک کوئی نہیں کر سکا۔
اس لیے ضروری ہے کہ بہت جلد اور اسی عبوری دور کے اندر چند ایسے اقدامات کر لیے جائیں جن سے عوام پر پڑنے والے بوجھ میں بھی کمی واقع ہو جائے اور ان میں یہ احساس بھی پیدا ہو جائے کہ مشکل کی اس گھڑی میں کوئی ان کے بوجھ میں حصہ بٹانے والا بھی ہے۔
حصہ بٹانے کے طریقے 2 طرح کے ہو سکتے ہیں۔ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس کا اے سی بند کر دیا جائے۔
وزیر اعظم ہاؤس اور دیگر ریاستی اداروں میں اس قسم کے اقدامات علامتی طور پر درست ہیں۔ اس سے کم از کم اتنا تو ہو جاتا ہے کہ عوام کچھ نہ کچھ یگانگت محسوس کرنے لگتے ہیں۔
اچھا ہو کہ یہ بات محض علامت تک محدود نہ رہے، اس کا عملی اظہار بھی ہو جائے۔ اچھا، اس کا ایک پہلو اور بھی ہے یعنی یہ کہ صرف وزیر اعظم ہاؤس کے ایئر کنڈیشن (اے سی) بند ہونے سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام ریاستی اسٹیک ہولڈرز ایک مشترکہ پالیسی کے تحت عوام سے یک جہتی کے اظہار کے لیے کچھ مؤثر قسم کے اقدامات کا اعلان کریں اور ان پر عمل کر کے دکھائیں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے قانون کے پابند ایمان دار عوام بجلی چوروں کی چوری کا بوجھ کیوں اٹھائیں۔ ریاست سنجیدگی کے ساتھ ملک کو مضبوط اقتصادی بنیادوں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے تو پھر لازم ہے کہ نہایت مختصر مدت میں بجلی چوری کا قلع قمع کیا جائے۔
یہ بھی ہے کہ ساری ساری رات کھلی رہنے والی مارکیٹوں کو نہ صرف بند کیا جائے بلکہ غروب آفتاب کے بعد سوائے بنیادی ضروریات زندگی کے ملک بھر میں ہر قسم کی کاروباری سرگرمیاں بند کر دی جائیں۔
یہ فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر کیا جائے اور پھر پوری قوت کے ساتھ اس پر عمل درآمد کرایا جائے۔
تیسرا فوری قدم یہ ہو سکتا ہے کہ برقی آلات کے استعمال کی صورت میں ضائع والی ہو جانے والی بجلی کو بچایا جائے۔ ساری دنیا میں اس سلسلے میں کامیاب تجربات ہوئے ہیں اور اسٹیبلائزر جیسے آلات تیار کیے گئے ہیں۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ جیسے مثال کے طور پر ایک ہزار واٹ والی بجلی کی استری گرم ہو کر ورکنگ پوزیشن میں آتے آتے کم از کم 1300 واٹ بجلی استعمال کر جاتی ہے۔دنیا میں اس ضیاع کو بچانے پر کام ہو رہا ہے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر امتیاز علی خان اس پر زیادہ مؤثر کام کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ان کا آلہ چین اور جاپان میں بننے والے آلات سے زیادہ مؤثر، زیادہ بچت دینے والا اور زیادہ عمر رکھنے والا ہے۔
حکومت اگر سرپرستی کرے اور ملک کے تجارتی ادارے موجد کے مفادات کو تحفظ دے کر اس کی پیداوار شروع کر دیں تو پروفیسر امتیاز کے مطابق بجلی کی کم از کم اتنی بچت ہو سکتی ہے جتنی کراچی میں بجلی کی کل کھپت ہے۔
اس پر اگر عمل درآمد ہو جاتا ہے تو ہمارے بجلی بل میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔ ہم تھوڑی سی مدت میں اگر یہ اقدامات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو توقع ہے کہ عوام کو اس ضمن میں اتنا ریلیف مل جائے گا جس سے وہ سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ خدشات جو علامہ عبد الستار عاصم کو پریشان کر رہے ہیں، وہ کوئی خطرہ بننے سے پہلے ہی تحلیل ہو جائیں گے، ان شاءاللہ ۔