14 اگست کو بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے حلف اٹھایا اور یوں وہ ملک کے 8 ویں نگراں وزیراعظم مقرر ہوگئے۔ نگران وزیراعظم کی تقرری کا ملکی سطح کی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام ف، اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی قوم پرست پارٹیوں نے خیر مقدم کیا۔ تاہم ان قوم پرست جماعتوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل شامل نہیں تھی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ذاتی حیثیت میں ان کا کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں جنہیں نگران حکومت پر بٹھایا جاتا ہے ان کی سیاسی جد وجہد کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے اسی لیےانہوں نے یہ بیان دیا تھا کہ وزیراعظم کو کیئر ٹیکر ہونا چاہیے انڈر ٹیکر نہیں۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’انوا الحق کاکڑ کی تقرری سے ناراضی شاید بہت سوں کو ہو لیکن اس کا اظہار صرف میں نے کیا اور ہم نے ناراضی کا اظہار اس لیے کیا کیونکہ آج ان سے جو فیصلے کروائے جارہے ہیں وہ میری بات کی صداقت ظاہر کرتے ہیں‘۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ایسے فیصلے وہ نہیں کر سکتے جن کی نشوونما سیاسی طور پر ہوتی ہے بلکہ ایسے فیصلے وہ کر سکتے ہیں جن کی نشوونما اداروں کے پولٹری فارم میں ہوئی ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی رہنما اپنے عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے کہا کہ نگراں حکومت سے جو فیصلے اس وقت کروائے جارہے ہیں یہ نگراں حکومت کے نہیں بلکہ آئندہ آنے والی حکومت کے گلے پڑیں گے۔
دوسری جانب نگراں حکومت میں شامل نگراں وفاق وزیر سرفراز بگٹی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’سردار اختر مینگل صاحب باپ پارٹی کے چیئیرمین سینیٹ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کی حمایت اور نگراں وزیر اعظم کی مخالفت کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ آپ جیسے بزرگ سیاستدان سے امید ہے کہ آپ اپنے رویے پر نظر ثانی کریں گے‘۔
سیاسی جماعتوں نے نگراں حکومت کی تقرری پر خوشی کا اظہار کیا ہو یا ناراضی کا لیکن اس وقت پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں، بجلی کے زائد بل اور اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کو نگراں حکومت کی پالیسیوں سے مایوس ہی کیا ہے۔