انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں جی 20 اجلاس کے لیے جو دعوت نامے جاری کیے گئے ہیں ان میں پریذیڈنٹ آف انڈیا کی جگہ پریذیڈنٹ آف بھارت لکھا ہے اور انڈین میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ انڈین پارلیمنٹ کے 18 سے 22 ستمبر تک ہونے والے خصوصی اجلاس میں انڈین آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم کر کے یونین آف انڈیا سے یونین آف بھارت میں نام تبدیل کر دیا جائے گا۔
2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں قائم ہونے والی بی جے پی کی حکومت میں انڈیا، ہندوستان یا بھارت بتدریج ایک ہندو انتہا پسند ملک بننے کی راہ پر گامزن ہے جس پر اندرون ملک بھی بی جے پی کو مزاحمت کا سامنا ہے لیکن اکثریتی ہندو طبقے کے جذبات کی تسکین کے لیے انڈیا ایک ایسی راہ پر گامزن ہے جو تقسیم کی لکیروں کو مزید گہرا کر کے کسی بھی ملک میں فرقہ ورانہ یا مذہبی بنیادوں پر سول وار کو جنم دے سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
انڈیا کی مذہبی بنیادوں پر ’ملک اور ثقافت کی شناخت‘ اس لیے بھی ایک انتہائی کٹھن مرحلہ ہے کیونکہ انڈیا میں دوسری مذہبی اقلیتیں خواہ وہ مسلمان ہوں، سکھ، عیسائی یا بدھ مت، ان کی تعداد کروڑوں میں ہے، جو دنیا کے کئی ممالک کی آبادی سے زیادہ ہے، تو کیا ایک ایسا ملک اپنی ایک مخصوص مذہبی شناخت کے ساتھ اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے؟ اس سلسلے میں وی نیوز نے عالمی امور کے ماہرین سے بات کی ہے۔
مودی کا تو سب کچھ ہندوتوا ہے، سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد
سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ انڈیا کا موجودہ نام میں وجود نہیں، یہ شناخت ہمارے پاس ہے کیونکہ انڈس دریا یا وادی سندھ کی تہذیب کی شناخت ہمارے پاس ہے اور میں نے اپنی کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کا تو سب کچھ ہندوتوا کی بنیاد پر ہے اور انڈیا نام کے حصول کے لیے انہیں سندھ فتح کرنا پڑے گا۔
انڈیا کبھی سیکولر تھا ہی نہیں
ایک سوال کہ کہ آیا نام کی تبدیلی انڈیا کی سیکولر شناخت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟ کے جواب میں سابق سیکریٹری خارجہ نے کہاکہ انڈیا کبھی بھی سیکولر نہیں تھا، یہاں پر تو ہندو راج دھانیاں تھیں۔ گوتم بدھ یہیں پیدا ہوا لیکن ہندوؤں نے اسے یہاں سے مار کر بھگا دیا اور اس کے پیروکار پھر چین اور مشرق بعید کی طرف نکل گئے۔
شمشاد احمد نے کہاکہ میں نے ہندوستان کے دوروں کے دوران دیکھا ہے کہ وہاں کی شناخت کو بدلا جا رہا ہے، تاریخی مقامات سے مسلمان ناموں کو مٹایا جا رہا ہے، دہلی اور آگرہ میں سڑکوں اور دیگر مقامات کے نام بدلے جا رہے ہیں، لیکن ان کے خیال میں مودی یہ اچھا کر رہا ہے کہ انڈیا کو اس کی اصلی شناخت کی طرف لے جا رہا ہے۔
انتہا پسند ملکوں میں گھرے پاکستان پر اثر پڑ سکتا ہے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی
دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ خالد نعیم لودھی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہو ئے کہاکہ پاکستان کے ایک طرف ایران ایک مذہبی انتہا پسند ملک ہے، دوسری طرف افغانستان وہ بھی ایک مذہبی انتہا پسند ریاست ہے اور اب تیسری طرف بھارت جو ایک مذہبی انتہا پسندی کی راہ پر گامزن ہے، اس کے اثرات پاکستان پر پڑ سکتے ہیں، یہاں بھی انتہا پسند عناصر مضبوط ہو سکتے ہیں اور معاشرے میں اپنی گرفت مضبوط کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے، اور ہمارے لیے سب سے ضروری چیز جمہوریت کی مضبوطی ہے۔
خالد نعیم لودھی نے کہاکہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کس طرح سے چمک اور نکھر کر سامنے آتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے تو لگتا ہے کہ انڈیا جلد اعلان کرے گا کہ اب وہ ایک سیکولر نہیں بلکہ ایک ہندو مذہبی ریاست ہے۔
انڈیا میں رہنے والوں کو مذہب تبدیل کرنا پڑے گا یا ہجرت کرنا پڑے گی
دفاعی تجزیہ نگار نے کہاکہ مہا بھارت ہندوؤں کے اعتقاد کا حصہ ہے اور ان کا یہ ماننا ہے کہ یہاں رہنے والے لوگوں کو یا تو اپنی مذہبی شناخت ہندو میں تبدیل کرنا پڑے گی یا انہیں انڈیا چھوڑنا پڑے گا۔
انہوں نے کہاکہ آج کل پوری دنیا میں انتہا پسندی کا رجحان ہے، ہندوستان کی موجودہ قیادت نے بھی اس احساس کے تحت انتہا پسندی کی طرف اپنا سفر شروع کیا ہے کیونکہ آج کی دنیا میں جہاں معیشت اچھی ہو، وہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس ملک میں انسانی اور اقلیتی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ آج کل کی دنیا میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔
خالد نعیم لودھی کا کہنا تھا کہ انڈیا ایک بڑے ملک کے طور پر اس وقت فائدہ اور نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے دنیا کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ وہاں انسانی حقوق کی کیا صورتحال ہے اور موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تو ساری سیاست ہی ہندو نیشنلزم یا قومیت پر بنیاد رکھتی ہے۔
انڈیا پروامریکا اور مذہبی جنونیت کی طرف بڑھ رہا ہے، ڈاکٹر مجیب افضل
اسسٹنٹ پروفیسر اسکول آف پالٹیکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر مجیب افضل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ لفظ انڈیا تو انڈس ویلی سولائزیشن کے لیے مخصوص لفظ ہے اور ان لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے جو دریائے سندھ کے آس پاس رہتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ بھارت اس دیسی قبیلے کا نام تھا جو دریائے سندھ کے ساتھ آباد تھا۔ بھارت کا لفظ وادی سندھ اور پوری گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے اور بھارت کا لفظ ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ لفظ انڈیا کی بنیاد یونانی ہو سکتی ہے کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ سکندراعظم نے دریائے جہلم کے کنارے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ اس نے انڈیا فتح کر لیا ہے۔
لفظ انڈیا کو مسلمانوں نے زیادہ مشہور کیا
ڈاکٹر مجیب افضل نے کہاکہ لفظ انڈیا کو مسلمانوں نے زیادہ مشہور کیا اور پھر برطانوی راج میں اس لفظ کو بھارت پر ترجیح دی گئی، کہا اور سمجھا گیا کہ لفظ انڈیا ساری قومیتوں اور مذہبی شناختوں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ لفظ بھارت ہندو مقدس کتابوں میں اپنے ذکر کی وجہ سے ایک مذہب کے لیے مخصوص ہو گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس نے بھی لفظ انڈیا ہی کو ترجیح دی۔ بھارت میں کہا یہ جا رہا ہے کہ غیرملکیوں نے یہاں کی تاریخ اور تمدن کو خراب کیا اور اب اس کو بیرونی اثرات سے پاک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر مجیب افضل نے کہاکہ انڈیا فرقہ ورانہ تقسیم کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ ہم اس فرقہ ورانہ تقسیم کے دور سے گزر چکے ہیں۔ انڈیا اس وقت پروامریکا دور سے گزر رہا ہے جس سے ہم گزر کر آئے ہیں اور پرو امریکا دور کی نشانی ملک کی مذہبی بنیاد ہے۔