پاکستان میں اس وقت ہر قسم کا کاروبارزبوں حالی کا شکار ہے، ایک چھوٹے تاجر سے لے کر انڈسٹریز کے مالکان تک شدید پریشانی کا شکار ہیں ڈالر کی اڑان اور روپے کی گرتی ہوئی قدر ملکی معیشت کو سخت نقصان پہنچارہی ہیں۔
ایک اسٹیل مل کے مالک مسعود آفریدی نے 2019 سے چین سے پاکستان اپنی انڈسٹری کو منتقل کیا تاکہ وہ پاکستان کو فائدہ پہنچا سکیں مگر اب مسعود آفریدی کا شمار بھی انہی تاجروں میں ہے جو اپنے کاروبار کے مستقبل کی وجہ سے پریشان ہیں۔
بیشتر دیگر تاجروں کی طرح مسعود آفریدی کی کمپنی بھی روزمرہ کے اخراجات بمشکل پورا کررہی ہے اور بقول ان کے ’منافع تو بہت دور کی بات ہے‘۔ وہ اپنی جمع پونجی اس منصوبے پرصرف کر چکے ہیں اوراب وہ دوبارہ چین بھی نہیں جا سکتے کیونکہ اب ان کی یہ ’پاکستانی کمپنی‘ ان کی حقیقی سرمایہ کاری کا پیسہ بھی پورا نہیں کر پائے گی۔
وی نیوز سے گفتگو میں مسعود آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں بزنس کمیونٹی کو سب سے بڑی مشکل اور پریشانی حکومتی تعاون کا فقدان ہے۔ یہاں تاجر حکومتوں کے پاس جاتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں حکومتیں خود تاجروں سے سوال کرتی ہیں کہ تاجر انہیں خود بتائیں کہ وہ کیسے ان کی مدد کر سکتی ہیں۔
’یہاں حکومتوں کے پاس کوئی پلان نہیں ہوتا مجھے آج بھی یاد ہے جب میں نے چین میں اپنا کاروبار شروع کیا تو وہاں کی حکومت نے پہلے ہماری ٹریننگ کی، سب بتایا اور سکھایا، اور اس کے بعد لائسنس دیا، ایسا نہیں کہ ہم نے غلطیاں نہیں کی، مگر اس کے باوجود بھی انہوں آگاہ کیا، ہمیں سکھایا اور ہر چیز کی پیچیدگی سے۔
قدرے افسردگی کے ساتھ مسعود آفریدی کا کہنا تھا کہ اگر وہ چین سے واپس نہ آتے تو آج بہت ترقی کر چکے ہوتے۔ ’پاکستان میں بہت سی چیزوں کا فائدہ ہے مگر کچھ کوتاہیوں اورلاپرواہیوں کی وجہ سے یہ ملک ترقی نہیں کرپا رہا جبکہ ہمارے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔