امریکا میں گوگل کے خلاف ایک اہم مقدمے کی سماعت کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے جس میں امریکی وزارت قانون نے الزام عائد کیا ہے کہ مارکیٹ میں اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے گوگل کی جانب سے ایپل سمیت مختلف کمپنیوں کو ہر سال اربوں ڈالر کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
واشنگٹن کی ایک عدالت میں اس کیس کی سماعت 10 ہفتوں تک جاری رہے گی جس میں 100 سے زائد گواہان کو پیش کیا جائے گا۔ کیس کی سماعت کرنے والے جج امیت پی مہتا کو گوگل کے وکیل اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وزارت قانون کی جانب سے کمپنی پرعائد کردہ الزامات بے بنیاد ہیں۔
منگل کو کھچھا کھچ بھری عدالت میں ابتدائی دلائل دیتے ہوئے وزارت قانون کے وکیل کینیتھ ڈینٹزر نے کہا کہ یہ کیس انٹرنیٹ کے مستقبل کا تعین کرے گا اور یہ بھی کہ آیا گوگل کو کبھی اپنے مقابل کسی اور کمپنی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ گوگل ’ایپل‘ اور دیگر کمپنیوں کو ان کے فونز اور ویب براؤزرز پر ڈیفالٹ سرچ انجن ’گوگل‘ رکھنے کے لیے ہر سال 10 ارب ڈالر کی ادائیگی کرتا ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ مسابقتی کمپنیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے اور اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے گوگل دولت اور اثرورسوخ کا استعمال کرتا ہے۔ تاہم گوگل نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹرنیٹ صارفین گوگل پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ گوگل ایک معیاری سرچ انجن ہے۔
حکومتی وکیل نے عدالت کو مزید بتایا کہ گوگل اپنے معاہدوں میں اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ حریف کمپنیاں خصوصاً فونزپرسرچ کوالٹی ایڈ مونیٹائزیشن میں اس کی برابری نہ کرسکیں، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 12 سال سے ہر بار بہترین سرچ انجن کا قرعہ گوگل کے نام ہی نکل رہا ہے۔
گوگل کے وکیل جان شمیٹلین نے اپنے دلائل میں کہا کہ شاید حکومتی وکیل بھول رہے ہیں کہ گوگل دہائیوں سے اپنے سرچ انجن میں جدت اور بہتری لا رہا ہے، یہ عدالت مارکیٹ میں دخل اندازی نہیں کرسکتی اور یہ نہیں کہہ سکتی گوگل کو مقابلے کی اجازت نہیں ہے، اور اگر ایسا ہوا تو امریکی قانون قابل نفرت تصور کیا جائے گا۔
ناقدین ایک عرصے سے دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیوں سے متعلق خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ بڑی ٹیک کمپنیاں بشمول گوگل کی پیرنٹ کمپنی ’ایلفابیٹ‘ مارکیٹ کو کنٹرول کرتی ہیں۔
حکومتی وکیل نے عدالت کو مزید بتایا کہ حکومت اس بات کا پتہ لگائے گی کہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے گوگل نے کیا کام کیے ہیں۔ سرچ انجن مارکیٹ میں گوگل کا کنٹرول 90 فیصد ہے اور اس کا اثر مقبول پلیٹ فارمز سے لے کر ڈیٹا کے حصول اور آلات تک پھیلا ہوا ہے۔
گوگل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایپل اوردیگر کمپنیوں کی گواہی اس بات کا ثبوت ہے کہ گوگل نے آئی فون اور سفاری براؤزرکے لیے ڈیفالٹ سرچ انجن کا اسٹیٹس میرٹ پر حاصل کیا تھا۔
اس کیس کی سماعت 3 ماہ میں مکمل ہو جائے گی لیکن فیصلہ آنے میں مزید کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیصلہ جو بھی آئے، فریقین میں سے کوئی ایک بھی اس کیس کو مزید کئی سال تک طول دے سکتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ کیس 3 برس قبل صدر ٹرمپ کے دور میں دائر کیا گیا تھا۔ بڑی ٹیک کمپنیوں کی اجارہ داری کی کوششوں سے نمٹنے کے لیے یہ اب تک کی سب سے بڑی سنجیدہ حکومتی کوشش ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بھی اس معاملے پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے جولائی میں ٹیک کمپنیوں کے درمیان انضمام سے متعلق سخت قوانین کا اعلان کیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے جنوری میں گوگل کے اشتہارات کے کاروبار کے خلاف بھی ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس پر سماعت کا آغاز آئندہ برس کیا جائے گا۔
اس سے قبل 1998ء میں امریکی حکومت نے مائیکروسافٹ کے خلاف ایک کیس کیا تھا جس میں عدالت نے مائیکروسافٹ کے حصے کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کے بعد 2001ء میں فریقین میں راضی نامہ ہو گیا تھا۔