راولپنڈی میں مارشل آرٹس کی تربیتی اکیڈمی چلانے والے ندیم اظہر کہتے ہیں کہ اگر کوئی گن پوائنٹ پر آپ سے موبائل مانگے تو اسے موبائل دے دیں، کیونکہ یہ آپ کی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اکثر یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پرعجیب و غریب ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں جس میں اسلحہ اٹھائے شخص کو ایک لات مار کر اسلحہ چھین لیا جاتا ہے۔
مارشل آرٹس کے ماہر ندیم اظہر کے مطابق یہ تمام ویڈیوز طے شدہ سکرپٹ کے مطابق بنائی جاتی ہیں کہ پستول کہاں ہو گی اور دوسرا شخص کہاں ہاتھ یا لات مارے گا۔ پستول یا بندوق سے فائر کرنے کے لیے صرف ایک انگلی ہلانا ہوتی ہے جب کہ اسلحہ چھیننے کے لیے آپ کو پورے جسم کو حرکت دے کر سامنے والے شخص پر حملہ کرنا تھا، جو کہ نا ممکن ہے۔
موبائل یا پرس دیتے ہوئے اسے زمین پر گرا دیں
اگر آپ مارشل آرٹس کے ماہر ہیں تو پھر آپ کو سامنے والے شخص سے اسلحہ چھیننے کے لیے کوئی موقع ڈھونڈنا ہوگا۔ ندیم اظہر کے مطابق وہ مشورہ دیں گے کہ جب آپ اپنا موبائل یا پرس ڈاکو کے حوالے کر رہے ہوں تب اسے دیتے ہوئے دانستہ طور پر زمین پر گرا دیں۔ جیسے ہی آپ اپنا پرس یا موبائل زمین پر گرائیں گے تو چھیننے والے کی توجہ ایک لمحے کے لیے دوسری طرف مبذول ہوگی۔ یہی موقع ہے کہ آپ اسلحہ بردار شخص پر جھپٹ پڑیں اور اسے پوری طاقت سے ماریں۔ ندیم اظہر کے مطابق اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ مارشل آرٹس کے ماہر ہوں اور جانتے ہوں کہ یہ کون سا اسلحہ ہے اور کیسے چھیننا ہے۔
انیس سو اسی کی دہائی میں مارشل آرٹس میں بلیک بیلٹ حاصل کرنے والے ندیم اظہر برسوں سے راولپنڈی میں مارشل آرٹس کی تربیت دیتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے مطابق مارشل آرٹس کا شوق انہیں بچپن سے ہی ہو گیا تھا جب انہوں نے کراچی میں کچھ مارشل آرٹس کے کھلاڑیوں کو پریکٹس کرتے دیکھا۔ اس وقت وہ مارشل آرٹس کے شوتو کان سٹائل کو فالو کرتے ہیں کیونکہ یہ ان چار میں سے ایک ہے جسے ورلڈ کراٹے فیڈریشن قبول کرتی ہے۔
بچے، بڑے سبھی کو ٹریننگ کراتے ہیں
ویسے تو عمر کے کسی بھی حصے میں آپ اس کی پریکٹس کا آغاز کر سکتے ہیں لیکن ندیم اظہر کے مطابق کم سے کم بچہ 4سال کا ہو تو وہ اسے ٹریننگ کرا سکتے ہیں۔ ان سے سیکھنے والوں نے مختلف ممالک میں جا کر مارشل آرٹس کے مقابلوں میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑ رکھے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ صرف پروفیشنل ٹریننگ کرا کے مارشل آرٹس کے ماہر تیار کیا کرتے تھے لیکن ایک دلچسپ واقعے کے بعد انہوں نے بچوں کو بھی یہ فن سکھانا شروع کر دیا ہے۔
ندیم اظہر کا کہنا تھا کہ ایک روز وہ اپنے کام کے بعد گھر واپس آئے تو گھر کے کار پورچ میں 5بچے موجود تھے۔ انہوں نے گھر والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ کچھ خواتین آئی تھیں اور انہوں نے کہا کہ یہ بچے اگلے 2گھنٹوں کےلیے آپ کے حوالے ہیں۔
اس کا پس منظر یہ تھا کہ کچھ غیر ملکی خواتین نے جو اپنی شادی کے بعد پاکستان میں مقیم تھیں، ہم سے رابطہ کیا کہ ہمارے بچوں کو مارشل آرٹس کی تربیت دیں، ہم نے انکار کر دیا کہ ہم بچوں کو نہیں سکھاتے۔
ندیم اظہر کے بقول جب بچے ان کے گھر آگئے تو پھر انہوں نے ان کو بھی ٹریننگ کرانے کا آغاز کیا اور اس کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ اب یہاں ٹریننگ کے لیے آنے والے بچے اسے اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔