بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، لیکن قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہاں احساس محرومی اور پسماندگی ہے۔
وسائل کی تقسیم میں ہمیشہ اس صوبے کے عوام کو نظر انداز کیے جانے کا مسئلہ درپیش رہا، یہی وجہ ہے کہ آزادی کے 77 سال گزر جانے کے باوجود بھی بلوچستان ملک کے باقی حصوں سے زیادہ پسماندہ ہے۔
مزید پڑھیں
اکیسویں صدی میں جہاں دنیا چاند اور مریخ پر قدم رکھ چکی ہے۔ وہیں بلوچستان کے باسی آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ صوبے میں بیڈ گورننس نے عوام کو سیاسی عمل سے شدید مایوس کیا ہے۔ عوام کا ماننا ہے کہ اہل اقتدار ایوان کی نرم کرسیوں پر بیٹھ کر صوبے کے عوام اور ان کے مسائل کو بھول جاتے ہیں، جبکہ دوسری جانب سیاستدانوں کے مطابق مرکز میں بڑی نمائندگی نہ ہونے سے بھی بلوچستان کے مسائل کے حل میں کامیابی نہیں مل سکی۔
صوبے کو درپیش مسائل
بلوچستان کو مسائل کا گڑھ کہا جائے تو بالکل غلط نہ ہو گا، صوبے کے چند بڑے مسائل کا ذکر کیا جائے تو ان میں تعلیم، صحت، امن و امان اور مواصلاتی نظام شامل ہیں۔ بات کی جائے اگر شعبہ تعلیم تو ہر سال اربوں روپے کا بجٹ رکھا جاتا ہے لیکن صوبے میں تعلیمی صورتحال جوں کی توں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں 27.4 فیصد اسکول بند پڑے ہیں جبکہ 63.6 فیصد اسکولوں میں طلبا وطالبات کے لیے کُرسیاں ہی موجود نہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صوبے کے 18.8 فیصد اسکولوں میں پینے کا پانی تک موجود نہیں۔
صوبے کے 4 ہزار اسکولوں میں صرف ایک ایک استاد ہے، نگراں وزیر تعلیم
چند روز قبل نگراں وزیر تعلیم قادر بخش بلوچ نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ صوبے کے 5 ہزار 716 اسکولوں میں بیت الخلا کی سہولت بھی موجود نہیں جبکہ صوبے کے 4 ہزار اسکولوں میں صرف ایک ایک استاد موجود ہے۔
اسپتالوں میں مریضوں ادویات تک میسر نہیں
صوبے میں صحت کی صورتحال بھی تعلیم سے مختلف نہیں، بات کی جائے اگر صوبے کے سرکاری اسپتالوں کی تو پورے صوبے میں صرف 2 ٹرژری کیئر اسپتال موجود ہیں، ان اسپتالوں میں بھی مریضوں کو ادویات دستیاب نہیں جبکہ کئی اہم ٹیسٹ کی مشینیں بھی عرصہ دراز سے خراب پڑی ہیں۔
صوبے میں امن وامان کی صورت حال مخدوش
صوبے میں امن و امان کی صورتحال بھی بہتر نہیں ہے، آئے روز کالعدم تنظیموں کی جانب سے اہم سیاسی رہنماؤں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے صوبے کے عوام میں ایک بے یقینی کی کیفیت موجود ہے۔
3 سال میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے 876 اموات ہوئیں، رپورٹ
بات کی جائے اگر مواصلاتی نظام کی تو یہ ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں ایک کلو میٹر بھی موٹر وے موجود نہیں جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات آئے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ میڈیکل ایمرجنسی رسپانس سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق قومی شاہراہوں کے دورویہ نہ ہونے کی وجہ سے حادثات میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے، 3 سال کے دوران ٹریفک حادثات میں 876 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
اوپر بیان کیے گئے مسائل کے علاوہ بھی بلوچستان کے عوام کے احساس محرومی کی ایک طویل فہرست موجود ہے، جس میں سب سے اہم مسئلہ لاپتا افراد کی بازیابی اور وسائل کی برابر تقسیم نہ ہونا ہے۔
پانی کی قلت، شعبہ ماہی گیری و زراعت میں مشکلات بھی بلوچستان کے اہم مسائل ہیں، اس کے علاوہ گیس کی رائلٹی اور ریکوڈک میں مناسب حصے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے، اور سب سے بڑھ کر سیاسی بے یقینی کی وجہ سے بھی لوگ پریشان ہیں۔
یہ بھی پڑھیں ہر ضلع کا دورہ کرکے عوامی مسائل سے آگاہی حاصل کرونگا، نگراں وزیر اعلٰی بلوچستان
ملک کے اہم عہدوں پر اس وقت بلوچستان کے نمائندگان موجود ہیں، نگراں وزیراعظم کے طور پر انوار الحق کاکڑ نے حال ہی میں ذمہ داریاں سنبھالی ہیں جو بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور نوتعینات چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ بھی اسی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اہم عہدوں پر بلوچستان کی نمائندگی سے صوبے کے احساس محرومی میں کمی ہوگی یا نہیں۔
بلوچستان کے مسائل سیاسی ہیں، سید علی شاہ
اس سوال کے جواب میں بلوچستان کے سینیئر صحافی سید علی شاہ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت بلوچستان کے پاس عہدے تو بہت بڑے موجود ہیں لیکن ان عہدوں کی وجہ سے بلوچستان میں موجود بھوک، غربت، بے روزگاری اور پسماندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بلوچستان کے مسائل سیاسی ہیں، معاشی ہیں اور آئینی ہیں، جب تک 18ویں آئینی ترمیم میں بلوچستان کے ساتھ کیے گئے وعدے وفا نہیں کیے جاتے تب تک شاید یہ مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔
سید علی شاہ نے بتایا کہ کوئی ایک یا دو افراد کے اہم عہدوں پر بیٹھ جانے سے یہاں کے بلوچ، پشتون، ہزارہ اور دیگر اقوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سیاسی قیادت کے پاس کوئی بہتر پلان ہونا ضروری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان بلوچستان کے اہم کیسز پہلے سنیں، ایوب ترین
صوبے کے ایک اور سینیئر صحافی ایوب ترین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ملک کے اہم عہدوں پر بلوچستان کے نمائندگان کا ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔
انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ میں موجود صوبے کے کیسز کو پہلے سننے کی ضرورت ہے۔ ’ان کیسز میں بلوچستان کی مردم شماری کا کیس، لاپتا افراد سے متعلق کیس، وکلا خودکش قتل کمیشن سمیت دیگر کیسز شامل ہیں‘۔
ایوب ترین نے کہاکہ صوبے کے عوام نے بڑے عہدوں پر بیٹھی شخصیات سے اپنے مسائل کے حل سے متعلق امیدیں باندھ لی ہیں۔
اعلیٰ عہدوں پر براجمان شخصیات کو بلوچستان کے حقوق کی بات کرنی چاہیے
ان کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کا بہتر حصہ، گیس میں رائلٹی اور 18 ویں ترمیم کے بعد صوبے کو دیے جانے والے حقوقِ کی منتقلی پر ان شخصیات کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ صوبے کے عوام کو اس بات کی امید ہے کہ سیاسی مسائل کے حل سمیت صوبے کو درپیش انتظامی مسائلِ کے حل میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اپنا کردار ادا کریں گے۔